"KDC" (space) message & send to 7575

جے آئی ٹی اورحکومت

شریف خاندان کو پاناما کیس کے حوالے سے سنگین ترین چیلنج کا سامنا ہے سیاسی کیرئیر داؤ پر لگ چکا ہے، سپریم کورٹ نے ملک کے وسیع تر مفاد میں کرپشن اور سفارش کے سومناتی بت کوہمیشہ کے لئے پاش پاش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اس آلودگی میں بڑی اور اہم شخصیات ملوث ہیں ، ان کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے اور حکومتی حلقوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو متنازع بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا سپریم کورٹ نے اسے ختم کر دیا ہے، جے آئی ٹی کو سوالیہ نشان بنانے کی مہم سرکاری سطح پر شروع کی گئی مگر اس سے وزیر اعظم کی پوزیشن مزید کمزور ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود حکومتی حلقے جے آئی ٹی کومتنازع قرار دے رہے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔آفر کسی کے حق میں یا خلاف فیصلہ تو آنا تھا، اب چونکہ فیصلہ حکومتی خاندان کے خلاف آگیا ہے تواس کا یہ مطلب نہیں کہ کارروائی متنازع ہو گئی۔ حسین نواز کو چونکہ حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اس لئے حکومت ایسے رد عمل کا اظہارکر رہی ہے جیسے وہ حزب اختلاف ہے۔ مقدمہ سیاسی ہے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ملزم اپنے ساتھ وکیل لے جائیں، حکمران جماعت نے جے آئی ٹی پر اعتراضات اٹھا کر غلطی کی ہے ، اور وزیر اعظم کے صاحبزادے مشترکہ ٹیم کے دو ایماندار ، دیانتدار ارکان پر حرف زنی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے آرٹیکل 65 اور آرٹیکل91کے تحت جو حلف اٹھایا ہے اسی کے تحت ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ اور ملک کے عوام کو اس سوال پر مطمئن کریں کہ پاناما پیپرز میں ان کے صاحبزادگان کے نام کیوں آئے ا ور سپریم کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف جاتا ہے تو آئندہ عام انتخابات پارٹی کے لئے کوئی آسان ثابت نہیں ہوں گے۔ اگرچہ ان کی سیاسی جانشین مریم نواز عملی طور پر اس مقدمے سے باہر ہیں لیکن حدیبیہ پیپرز کیس، اور حسین نواز کے ٹیلی وژن پر اعترافی بیانات ان کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن جائیں گے! اور اس کے باوجود اگرمریم نواز نے آئندہ انتخابات میں سیاسی مہم کا آغاز کیا تو مخالف جماعتیں ان کے خلاف ڈان لیکس اور دیگر متنازع متفرقات پر شدید نوعیت کی انتخابی مہم چلائیں گی جس سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ مریم نواز کا دفاع نہیں کرپائیں گے۔ اسی طرح کا انجام صدر آصف علی زرداری بھی دیکھ چکے ہیں، جب پنجاب میں ان کے تمام حامیوں نے مخالف کیمپ میں پناہ لے رکھی تھی اور ان کے دست راست نجم سیٹھی بھی صدر آصف علی زرداری کو اپنی پھیکی مسکراہٹ سے بہلاتے رہے۔ آئندہ 60 دنوں میں قومی سیاست اپنا رخ متعین کرے گی لہٰذا تمام نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں۔ جو جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں تین کی اکثریت سے فیصلے کے برقرار رہنے میں اسے تبدیل کرنے کا طے کرے گی۔
حکومتی ارکان مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ازخود ٹیم سے علیحدہ ہونے کی تلقین کررہے ہیں، ان کا موقف اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اقتدار سے دستبردار ہونا پڑے گا کیونکہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے چیف جسٹس صاحبان نے انہیں صادق اور امین نہ ہونے کا کہہ رکھا ہے ۔الیکشن کمیشن کو واضح ہدایت جاری کی تھی کہ نواز شریف کی نا اہلیت کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، پاکستان کے ایک قومی اور با اثر روزنامہ اخبار نے قصہ واٹس ایپ کالر کا اور جے آئی ٹی کے حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ سے سرکاری فون پر گفتگو کے سلسلے میں جو کچھ شائع کیا گیا ہے اور میڈیا کے ذریعے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو فاضل ارکان کے بارے میں جو صورت حال سامنے آ رہی ہے وہ سراسر بزنس رولز کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ سرکاری امور میں ٹیلی فون کے ذریعے مشاورت عام معمول کی کارروائی ہے جسے تضحیک اور پراسرار انداز میں پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ وزراء جس انداز سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنا کر حالات کا رخ موڑنا چاہتے ہیں، اگر سپریم کورٹ کے عمل درآمد کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے آرٹیکل 190 کا سہارا لیا تو وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ کیونکہ اسی طرح کے ملتے جلتے کیس میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 67کے مطابق اگر ممبر قومی و صوبائی اسمبلی الیکشن ٹربیونل کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنے اور تاخیر ی حربے اختیار کرتے ہوئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے تو الیکشن کمیشن الیکشن ٹربیونل کی سفارش پر اس رکن کی ممبر شپ معطل کرنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں سپریم کورٹ کی مشترکہ منظوری سے تشکیل پانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا، فاضل ارکان پر بلا جواز تحفظات کا اظہار کرنا اور ان کو تحقیقاتی ٹیم سے علیحدہ ہونے کی میڈیا مہم چلانا ان کے فرائض میں مداخلت کے مترادف ہے! اس طرح حسین نواز کی رولز آف بزنس کے تحت کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ ان کے دفاع میں وزراء اور ارکان اسمبلی کا سامنے آنا آئین کے آرٹیکل 65 91, کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے! مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے ارکان مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کودھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اور ان کے بچوں پر زمین تنگ کر دی جائے گی۔ نواز شریف کا احتساب کرنے والوں کا جینا حرام کر دیا جائے گا، سینیٹر نہال ہاشمی نے براہ راست سپریم کورٹ کے فاضل ججز کو للکارا کیونکہ جے آئی ٹی کے حوالے سے حسین نواز کے اعتراضات مسترد کر دیئے گئے تھے اور اب پاکستان مسلم لیگ (ن) اس راہ پر نکل پڑی ہے جس انداز سے انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کروایا تھا، حکمران جماعت کے جنگجو ارکان پارلیمنٹ نے اسی انداز پر تابڑ توڑ زبانی حملے شروع کر دیئے ہیں، ان حالات میں سپریم کورٹ کے متعلقہ ججز صاحبان اور جے آئی ٹیم کے ارکان کی جان خطرے میں ہے اور سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت اپنی حفاظت کے لئے آرمی چیف سے رجوع کرنا ریاست کے مفاد میں ہوگا، سپریم کورٹ کے معزز ججز نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت کہا تھا کہ ان کی راہ میں مداخلت کرنے والوں کو توہین عدالت کے مترادف سمجھا جائے گا۔
موجودہ تناظر میں نواز خاندان کی مشکلات فوری حل ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں، ملک کی سیاسی تاریخ اپنا نیا رخ مڑ رہی ہے۔ نواز شریف اور عمران خان پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ عمران خان بنی گالا کا منی ٹریل ثابت نہ کر سکے تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ پاناما کیس کی جے آئی ٹی تیزی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ نہال ہاشمی کے ریمارکس کے بارے میں سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتے ہوئے ان پر آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت کاروائی عمل میں لا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں