"KDC" (space) message & send to 7575

پاناما: تحقیقات اہم مرحلے میں داخل

مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما کہہ رہے ہیں کہ اگرجے آئی ٹی نے وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادگان سے اربوں روپے کے اثاثے بنانے کی بابت سخت سوالات پوچھے اور اگر اس تفتیش پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیاتو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ نہال ہاشمی کے تضحیک آمیز جملوں کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان کے ریمارکس ، خاص طور پر سسلی مافیا کا ذکر وزیر اعظم پر عدم اعتماد کے مترادف ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کے ارکان شش و پنچ میں پڑ چکے ہیں۔ پاکستان کے حالات جس طرف جا رہے ہیں‘ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے ایسے عوامل پیدا ہو چکے ہیں جنہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ ان عوامل کا ان قوتوں سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا، جو ماضی میں اس طرح کے عوامل پیدا کرتی رہی ہیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس اور حکومت کو سسلی مافیا کا خطاب ملنے کے بعد بعض اہم ترقیاتی منصوبے سست روی کی طرف جا رہے ہیں ۔
پاناما کیس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تیزی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ اس کی تحقیقات پر وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ارکان پارلیمنٹ کا جو ردعمل سامنے آ رہا ہے وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ حکمران جماعت کی قیادت پہلی دفعہ شدید دبائو محسوس کر رہی ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے خلاف نا اہلی کا کیس بھی منطقی انجام تک جا رہا ہے۔ عمران خان بھی پہلی مرتبہ لندن میں اپنے فلیٹ کی خریداری کے لئے رقم کی ٹریل دینے کی غرض سے جمائما کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاریوں اور ان پر مقدمات کی وجہ سے ان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین، عزیر بلوچ، ایان علی اور شرجیل میمن اس وقت سنگین ترین مقدمات کی زد میں ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین اور عزیز بلوچ کے اقبالی بیانات اب قانونی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔یوں آئندہ انتخابات میں نواز شریف ، عمران خان اور آصف علی زرداری کی پوزیشن انتہائی کمزور ہوئی جا رہی ہے۔ملک میں متبادل قیادت لانے کے لئے اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور میرے علم میں ہے کہ قیادت کا سہرا کس اہم شخصیت کو دیا جائے گا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا یہ کہنا کہ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے بعد سارا احتساب ان کا ہو رہا ہے، درست نہیں، کیونکہ حسین شہید سہروردی کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے سلوک کا موازنہ نواز شریف یا ان کے بیٹے کے ساتھ ہونے والے سلوک سے نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سہروردی کے انتقال کے بعد ان کے اثاثوں کو دیکھا گیا تو ان کی حیثیت بھی قائد ملت لیاقت علی خان ہی سے ملتی جلتی تھی۔ حسین شہید سہروردی کا گنگارام بلڈنگ لاہور میں اوسط درجے کا چیمبر تھا جو ان کی رحلت کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا آماجگاہ بنا رہا اور 1964-65ء میں فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے دوران ان کا ہی آفس سیاسی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا رہا، اور ان کے دفتر کے باہر حسین شہید سہروردی چیمبر نمایاں طور پر لکھا ہوا تھا، اسی چیمبر میں میر ی ملاقات سرفراز ملک، احمد رضا قصوری ، بارک اللہ، نصراللہ شیخ، بیدار بخت، خواجہ محمد رفیق، مسٹر جاوید اقبال (چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) اور دیگر رہنماؤں سے ہوتی رہی۔ اسی چیمبر سے مال روڈ پر فاطمہ جناح کے حق میں جلوس نکالے جاتے تھے، یہ حسین شہید سہروردی کا کل اثاثہ تھاجو دو کمروں پر مشتمل تھا۔ آج کے سیاستدان حسین شہید سہروردی نہیں ہیں‘ ان جیسے سیاستدانوں کے احتساب کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مرحوم بیروت کے تھری سٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی مدد کے لئے یورپ، امریکہ، برطانیہ سے کوئی بزنس مین نہیں آیا تھا، ان ایام میں عربوں کی حالت اس طرح تھی کہ انہیں پاکستان کی طرف سے گندم تحفے میں بھجوائی جاتی تھی اور ان کے حکمران پاکستان کے حکمرانوں سے گاڑیوں کے لئے استدعا کیا کرتے تھے! 1954ء میں جب شاہ سعود اپنے سو سے زائد شہزادگان کے ہمراہ پاکستان آئے تھے تو انہیں لاہور کے معمولی ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا تھا۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے! چین کے ون بیلٹ ون روڈ وژن کی وجہ سے پوری دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے لئے ترقی کے امکانات بھی بہت ہیں اور یہ خطرات بھی زیادہ ہیں کہ کہیں پاکستان عالمی مفادات کی جنگ کاایک بار پھر میدان جنگ نہ بن جائے، ان حالات میں مضبوط اور تدبر والی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے،موجودہ سیاسی قائدین کی ہوس پرستی نے پاکستان میں قیادت کا بحران پیدا کر دیا ہے کیونکہ ان کے اربوں روپے کے اثاثوں کی پوچھ گچھ ہو رہی ہے اور پھر ان کے ذاتی مفادات بھارت، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب سے بہت گہرے ہیں اور قطر پاکستان میں اپنا مقام بنا چکا! کئی سیاسی رہنماؤں کے اثاثے ان ممالک میں موجود ہیں اور اگر نواز شریف اور آصف علی زرداری کرپشن کی جنگ کی بھٹی سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی ان کی سیاسی پوزیشن سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور آئندہ عام انتخابات میں پاکستان کی سیاسی قیادت اس قدر مضبوط نہیں ہو گی جس قدر بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں مضبوط ہونی چاہئے۔ پاکستان میں وہ سیاسی استحکام نظر نہیں آ رہا جس کی نئے حالات میں ضرورت ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے راجہ ظفرالحق کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہال ہاشمی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) سے خارج کر دیا ہے۔ نہال ہاشمی کو پنجاب کے کوٹہ سے سینیٹ کا رکن بنانے کے لئے صدر ممنون حسین نے سفارش کی تھی۔ وہ بھی نہال ہاشمی سے نالاں نظر آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ کے ایک اجلاس میں پارٹی میں ریشہ دوانیاںکرنے پر وزیر اعظم نواز شریف نے نہال ہاشمی کی سخت لہجے میں سرزنش اور انہیں پارٹی سے نکالنے کی وارننگ دی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے انتہائی غضب کا نشانہ بننے کے بعد نہال ہاشمی اپنے متنازع بیان کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار تھے! نہال ہاشمی گورنر سندھ بننے کے بھی خواہش مند تھے، اور بعد ازاں مشاہد اللہ کو وزارت سے سبکدوش کرنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے مقابلے کے لئے سینیٹر نہال ہاشمی کو وزارت میں شامل کرنے کے لئے ان کا نام بھی زیر گردش رہا۔نہال ہاشمی سیاست میں قصہ پارینہ بن گئے ہیں، اور مشاہد اللہ، سلیم ضیاء اور دیگر دوست بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں