"KDC" (space) message & send to 7575

اگر…

وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے حکم کے تحت 15 جون کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔ انہیں ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے طلب کیا گیا جو کہ جمہوریت کے لئے خوش آئند ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ کو انڈین تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لئے طلب کیا گیا‘ تو وہ مستعفی ہو گئے تھے اور پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ جے آئی ٹی کا دائرہ کار شریف خاندان کے کئی دور کے رشتہ داروں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ٹیم نے ان کی تقریباً چار درجن کمپنیوں کا پتہ لگایا اور سکیورٹی ایکسچینج کمیشن سے ان کے سالانہ اکاؤنٹس، مالی گوشواروں اور بینی فیشل اونرز سمیت دیگر تفصیلات بھی فوری طور پر طلب کر لیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف آج (بروز ہفتہ 17 جون) حدیبیہ ملز کے ریکارڈ سمیت جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سنگین الزامات کی وجہ سے نظاہر حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سپریم کورٹ کو بتا دیا ہے کہ اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں، کون اسے کام نہیں کرنے دے رہا اور کون ریکارڈ میں تحریف کر رہا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے شریف خاندان کے 1985ء سے اب تک کے مکمل ٹیکس گوشوارے نہیں دیے اور جو دیے گئے ہیں وہ نامکمل ہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد اب حکومت کے اہم اداروں کے مابین تصادم کا اندیشہ پیدا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اُدھرحکمران جماعت تقسیم ہو رہی ہے اور اس کے سو سے زائد ارکان پارلیمنٹ‘ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد اپنے مستقبل کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے پاس شریف خاندان کی منی لانڈرنگ اور متضاد بیانات کا ریکارڈ موجود ہے۔ ٹیم کو شریف خاندان کی جائیدادوں اور اکاؤنٹس کو غیر قانونی ثابت کرنے کے لئے شاید کسی وعدہ معاف گواہ کی ضرورت نہیں رہی۔ جے آئی ٹی نہ صرف انصاف کر رہی ہے بلکہ انصاف ہوتا دکھائی بھی دے رہا ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کی جانچ پڑتال کے لئے اسی طرز کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے۔ بدقسمتی سے عمران خان اپنے ہی مشکوک دوستوں کی مشاورت کی وجہ سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنوانے میں ناکام رہے، حالانکہ ان کو جنرل راحیل شریف نے ملاقات کے دوران جے آئی ٹی بنوانے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن عمران خان کے ساتھیوں نے جب اسحاق ڈار کے ساتھ معاہدہ کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنایا گیا تو جے آئی ٹی کی شق کو نظر انداز کرکے انکوائری کمیشن کا اصل جوہر ہی نکال دیا گیا۔
شریف خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے نیشنل بنک کے صدر نے‘ جو کہ بیک وقت پاکستانی اور برطانوی شہریت رکھتے ہیں، ایک خط کے ذریعے جے آئی ٹی کی جانبداری کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے ایک اخبار نے ہیڈ لائن کے ذریعے ان کے موقف کو جس انداز میں اجاگر کیا‘ کوئی اور کہانی بیان کرتا محسوس ہوتا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ اگر نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گئی تو نہ صرف وعدہ معاف گواہوں کی ایک قطار لگی ہوئی نظر آئے گی بلکہ رضاکارانہ مواد فراہم کرنے والے بھی ضمیر کی آواز کا سہارا لیتے ہوئے سامنے آ جائیں گے۔ قطری شہزادے کے حوالے سے شریف خاندان بہت پُرامید تھا اور قطری خاندان کے مشیر سیف الرحمن کی تمام کوششوں کے باوجود موصوف نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے سے انکار اس بنا پر کیا ہے کہ خود موصوف کو مبینہ طور پر اپنے ملک کے اندر کالے دھن کو سفید کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ شریف خاندان نے سیف الرحمن کے مشورے سے ایک ایسے شہزادے سے خط لکھوایا جو پہلے ہی منی لانڈرنگ میں ملوث رہ چکا ہے۔ اسی بنا پر سیف الرحمن کی ایما پر شریف خاندان ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے لئے انصاف کا ایک خاص ماحول اور انتظام چاہتے ہیں اور اسی کوئی شخص جے آئی ٹی کے دفتر میں گھس کر حملہ آور ہونا چاہتے تھا مگر ڈی ایس پی نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طوفان بدتمیزی کا رخ موڑ دیا۔
حسین نواز، حسن نواز، طارق شفیع‘ وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سعید احمد کے بعد اب اسحاق ڈار وغیرہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہوں گے اور آخر میں وزیر اعظم نواز شریف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے جائیں گے۔ میری ناقص رائے میں وزیر اعظم کے منصب کے شایان شان نہیں کہ وہ اپنے ماتحتوں کے سامنے پیش ہو کر اپنی منی ٹریل کا دفاع کریں۔ میری ذاتی رائے یہ بھی ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے سے پیشتر وزیر اعظم مستعفیٰ ہو جائیں اور اخلاقی پوزیشن میں آ جائیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایماندار، دیانتدار ارکان اسمبلی کی کمی نہیں ہے۔ چوہدری نثار علی اور احسن اقبال موجود ہیں اور وزیر اعظم کے مستعفیٰ ہونے سے پاکستان انتشار، انارکی اور سیاسی محاذ آرائی جیسی صورتحال سے باہر نکل آئے گا۔ اگر سپریم کورٹ نے ان کو نا اہل قرار دے دیا تو ہمیشہ کے لئے ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں