"KDC" (space) message & send to 7575

ہوا کچھ اور کہہ رہی ہے!

وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی سے نکلنے کے بعد جو تحریری بیان پڑھا، اس میں انہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ جن اداروں اور سیاست دانوں پر تنقید کی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پریشان ہیں۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا غصہ اور چلنے کا انداز‘ سب کچھ عوام اور میڈیا کو نظر آ چکا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کی معاونت کرنے کے بجائے حکومت کا دفاع کر رہے ہیں۔ میرے نقطۂ نظر سے حکومت جو کچھ کر رہی ہے‘ اس سے ملک عدم استحکام کی طرف جا سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو میگا کرپشن معاملات کی وجہ سے خطرہ ہے‘ یہ کہ شریف فیملی جے آئی ٹی کے ارکان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔ کچھ لوگ پاناما کیس کی تحقیقات کا رخ بدلنے کے لئے انفرادی طور پر مہم چلا رہے ہیں‘ یہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ملک اور جمہوریت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ کچھ حکومتی ارکان اپنی ہمدردیاں بدلنے کے لئے بے چین نظر آ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ کرنا ہے، وہ حکمران خاندان کے تحفظ کے لئے سیاست نہیں کر رہے ہیں۔ 
وزیر اعظم‘ ان کے بعض متعلقین اور ان کے کچھ وزرا‘ جو مخصوص فکر کے حامل ہیں‘ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے بارے میں بلا وجہ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، جس سے ان کے ووٹ بینک روز بروز کم ہو رہے ہیں اور قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم کی مشروط طور پر بیان قلمبند کرانے کے حوالے سے جو خبریں منظم طریقے سے شائع کرائی 
گئیں‘ ان سے ملک کے ایک میڈیا ہاؤس کی ساکھ کوبہت نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت خلیج تنازعات میں گھرا ہوا ہے اور اس کی اپنی سالمیت امریکہ کے رحم و کرم پر ہے۔ ان حالات میں قطر کے شہزادے کی جانب سے حکمران خاندان سے اظہارِ یک جہتی سے ان کا ملک بھی متنازع بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف بظاہر خوش قسمت انسان نظر آتے ہیں کہ ان کی پشت پر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی حکومتیں کھڑی نظر آتی ہیں‘ جو ان کو بند گلی سے باہر نکال لیتی ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے پاکستان کے میڈیا کے بڑے حصے کو اپنا ہم خیال بنایا ہوا ہے۔ مفروضوں سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کسی واضح اور ناقابل تردید نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی۔ ان کے دوست نواز شریف کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ شاید کمیٹی انکوائری مکمل نہ کر سکے‘ لیکن اگر کمیٹی نے ایسی کوئی رپورٹ تیار کر لی تو بھی وزیر اعظم کے خلاف کوئی واضح اور ناقابل تردید ثبوت نہیں مل سکے گا۔ حکومت کے حامی تجزیہ نگار نواز شریف کی ڈھارس بندھاتے ہوئے یہ مہم چلا رہے ہیں کہ کمیٹی کی رپورٹ کو قبولیت حاصل نہیں ہو گی اور یہ بحث و مباحثہ کی نذر ہو جائے گی۔ یوں وزیر اعظم پاناما کیس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح کے چکا چوند تجزیے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لئے مولانا کوثر نیازی اور پیر علی محمد راشدی اپنے مخصوص صحافیوں کے ذریعے کراتے رہے‘ لیکن مسٹر بھٹو اقتدار سے بھی اور جان سے بھی گئے۔ پھر یہی صحافی اپنی وفاداری تبدیل کر کے جنرل ضیاء الحق کے میڈیا کیمپ میں چلے گئے۔
وزیر اعظم کے ترجمان نے مخصوص حکمت عملی کے تحت اپنی پریس کانفرنس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے رویے کو متعصبانہ اور اس کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اسے دھونس اور دھاندلی کے حربوں کا مرتکب قرار دیا! ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی خطرناک مضمرات کی حامل ثابت ہو سکتی ہے۔ حکومتی رویے سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بند گلی کی طرف جا رہی ہے اور مجھے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف آئینی مواخذہ کی زد میں آ رہے ہیں اور آئندہ رپورٹ میں اُن کی نا اہل کے معاملہ پر غور ہو گا، اس سلسلہ میں کسی مناسب حکم کا اجرا ضروری سمجھا گیا تو وزیر اعظم نواز شریف کو ممکنہ طور پر سپریم کورٹ جرح کے لئے طلب کرے گی اور اغلباً کیس کی مکمل سماعت ہو گی۔ وزیر اعظم نواز شریف کو ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے آئین کے آرٹیکل 63 (ون۔ایف) کے تحت نا اہل قرار دیئے جانے پر غور کا فیصلہ آنے کے اندیشے کو بھی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تو اپنی رپورٹ میں وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے کہ ان کی موجودگی میں ادارے ان سے تعاون کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی میں پیش ہو کر تاریخ رقم نہیں کی! ان سے پہلے چیف جسٹس حمودالرحمن انکوائری کمیشن میں صدر ذوالفقار علی بھٹو پیش ہوئے تھے اور مشرقی پاکستان کے سقوط کے حوالے سے ان پر جو الزام لگائے جا رہے تھے، انہوں نے ان کے جوابات دیے تھے۔ اسی طرح سابق صدر جنرل یحییٰ خان اور سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان بھی اپنے اپنے وقت میں انکوائری کمیشن کے رو برو پیش ہوتے رہے۔ واضح رہے کہ انکوائری کمیشن سپریم کورٹ بلڈنگ میں قائم کیا گیا تھا‘ جو اس دور میں مشرقی پاکستان ہاؤس کہلواتا تھا۔ ہمارے میڈیا کو تاریخ مسخ نہیں کرنی چاہئے۔ ان کو تاریخ کا ادراک ہونا چاہئے۔ اسی طرح جب لاہور میں 1953 میں ختم نبوت تحریک کے نتیجہ میں جزوی مارشل لا لگایا گیا تھا تو مولانا مودودی، مولانا عبدالستار نیازی اور دیگر رہنما جنرل اعظم کی مارشل لا کورٹ میں پیش ہوتے رہے اور اگرتلہ سازش کمیشن میں شیخ مجیب الرحمن‘ جسٹس ایس اے رحمن کی کورٹ میں آتے رہے، سابق وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو لاہور میں جسٹس مشتاق حسین کی عدالت میں پیش ہوئے اور بعد ازاں ان کو مقدمہ قتل میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان انوارالحق کی فل کورٹ میں پیش ہو کر اپنے دلائل دینے پڑے۔ اس طرح وزیر اعظم نے کون سی تاریخ رقم کی ہے؟ ان کی جے آئی ٹی کے رو برو حاضری کو معمول کا ایک عمل سمجھا جانا چاہئے۔ ماضی میں بھی بلند پایہ شخصیات عدالتوں اور انکوائری کمیشن میں پیش ہوتی رہیں۔
لگتا یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی مشاورتی ٹیم جے آئی ٹی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ان کو اندازہ ہی نہیں کہ ہوا کچھ اور کہہ رہی ہے۔ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ وقت کم ہے۔ معاملہ آگے بڑھے گا۔ ابھی ختم نہیں ہو گا۔ رحمن ملک کی طلبی کے بعد معاملہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ اب کئی اور نامور شخصیات جے آئی ٹی کے دائرے میں آ رہی ہیں۔ بڑے پنڈورا بکس کھل رہے ہیں۔ عوام کو لکھی ہوئی بے جان تقریر اور عجیب ہیئت کذائی کے ساتھ چلنے پھرنے سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ عوام جاگ اٹھے ہیں۔ ان کی اجتماعی ذہانت کو الیکشن میں گڑ بڑ کرکے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر عجب طرز کے لباس میں آئے، اُن کے اس انداز کو عوام کی اکثریت نے پسند نہیں کیا۔ حکمران سنجیدگی اختیار کرکے ہی حالات کو اپنے حق میں بہتر بنا سکتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں