"KDC" (space) message & send to 7575

صبر نہ آزمایا جائے!

سپریم کورٹ کے پاناما جے آئی ٹی عملدرآمد بینچ کے ریمارکس حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کے مترادف ہیں۔ معزز ججز حضرات نے کہا ہے کہ حکومتی ادارے حد میں رہیں، تحقیقاتی ٹیم کو ہراساں کرنا بند کیا جائے ورنہ انتہائی ناخوشگوار حکم دینے پر مجبور ہو جائیں گے، صبر نہ آزمایا جائے۔ کہا گیا‘ میڈیا پر 8 حکومتی نمائندے منظم مہم چلا کر سرکاری افسروں اور عدلیہ پر حملہ آور ہو رہے ہیں، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے خلاف سنگین الزامات ہیں، خاموش تماشائی نہیں بنیں گے، اٹارنی جنرل فیڈریشن کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کسی کی طرف داری نہ کریں۔ ایسے ریمارکس کسی جمہوری ملک کے سربراہ کو سننے پڑتے تو وہ فوری طور پر مستعفی ہو جاتے، لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم کم و بیش ایک صد عزیز و اقارب کے ساتھ حجازِ مقدس چلے جاتے ہیں۔ یہاں مجھے حضرت عمر فاروق ؓ یاد آ گئے جنہوں نے مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص ؓ کو لکھا تھا ''میرے بھائی! تم نے اپنی بے انداز دولت کا حساب تو دے دیا، مگر میں اپنے اس دل کا کیا کروں جو مانتا ہی نہیں کہ کوئی سچا مسلمان اس قدر امیر ہو سکتا ہے‘‘۔ کیا عجب کہ اب سپریم کورٹ کی جانب سے سرزنش کے بعد سچ بولنے کی آرزو ان کے سینے میں چنگاری پیدا کر دے اور قوم سے خطاب میں کہہ دیں کہ نواز خاندان نے اپنا ماضی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے پاکستان کے سادہ دل عوام کی ہمدردیاں جیتیں! اس وقت پاناما کیس ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وزیر اعظم نواز شریف ممکنہ طور پر ہولناک گرداب میں پھنس جائیں گے۔ پاناما معاملات کی وجہ سے سی پیک منصوبہ متاثر ہو رہا ہے۔ چینی حکومت شش و پنج میں مبتلا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ کے معاملات اور خطے میں تناؤ جیسے معاملات بھی درپیش ہیں۔ مناسب یہی ہو گا کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی آئے اور جمہوری طریقے سے۔
پاناما کیس عمل درآمد بینچ کے مطابق جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کے خلاف پروپیگنڈے میں 8 افراد ملوث ہیں۔ جسٹس اعجازالحسن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ 8 افراد مختلف ٹاک شوز میں جے آئی ٹی کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، جب صورت حال زیادہ شدید ہو جائے گی تو عدالت حکم جاری کر دے گی۔ سیاسی تاریخ اپنا راستہ خود متعین کر رہی ہے اور پاکستان کا سیاسی اور انتخابی نظام اپنے انداز بدل رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے مڈل ایسٹ کے حکمرانوں پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کٹھ پتلیوں کا نظام مزید نہیں چل سکتا‘ تو کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کا اشارہ پاکستان کے طاقتور اداروں کی طرف تھا‘ جو ان کے خیال میں ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں پیش ہونے کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں، جبکہ ان کا یہ موقف درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت ان کو ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے پیش ہونا ہی تھا۔ اگر وہ پیش نہ ہوتے تو ان کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے عدم تعاون کی بنا پر جیل بھجوادیا جاتا۔ ویسے دیکھا جائے تو شریف خاندان کا احتساب ہر دور میں ہوتا رہا! پاکستان کی تاریخ میں عبدالغفار خاں، باچا خان اور صدر ایوب خان کے ایبڈوکے تحت سینکڑوں سیاسی رہنماؤں کا احتساب ہوا اور اسی طرح وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فیلڈ مارشل ایوب خان اور ان کے صاحبزادوں کا احتساب ایف آئی اے کے ذریعے کروایا۔ ایف آئی اے کے پہلے ڈائریکٹر جنرل راؤ عبدالرشید خان نے صدر ایوب خان کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں باریک بینی سے احتساب کروایا اور بعد ازاں ان کو کلین چٹ دے دی گئی۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم بھٹو کو سزائے موت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سوائے اقتدار سے محرومی کے وزیر اعظم نواز شریف کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا تھا اور جلا وطنی کے بعد بھی پہلے کی طرح وہ ارب پتی ہی رہے۔ حکمران خاندان ہر مشکل دور سے اپنی ''حکمت عملی‘‘ کی وجہ سے صاف نکل گیا۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں بریگیڈیئر نیاز نے شریف خاندان پر ہاتھ رکھا اور ان کے روزمرہ کے معمول چلتے رہے۔ بریگیڈیئر نیاز احمد کی سفارش سے شہباز شریف، حسین نواز اور حسن نواز کو لندن اور امریکہ جانے کی اجازت دی گئی اور بعد ازاں نواز شریف کو بھی لندن جانے کے لئے تمام سہولتیں فراہم کی گئیں‘ کیونکہ ان دنوں یہی کہا جا رہا تھا کہ حسین نواز پُراسرار بیماری کی لپیٹ میں ہیں‘ ان کی تیمارداری کے لئے نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاق فائونڈری قومی تحویل میں ضرور لی لیکن میری معلومات کے مطابق 1978 میں ہی اتفاق فاؤنڈری کو جنرل ضیاالحق نے جو معاوضہ دیا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شریف خاندان جنرل ضیا الحق کے دور میں امیر ترین صنعت کاروں کی صف میں کھڑا ہو گیا، اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے 1988 میں اقتدار میں آنے کے بعد دولت کے انبار لگانا شروع کر دیئے اور ہر مالی ادارے میں ان کی مبینہ کرپشن کی تاریخ رقم ہونے لگی۔ اسی بھیانک کرپشن کو دیکھتے ہوئے راؤ عبدالرشید بے نظیر بھٹو کی کابینہ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ تیس سال میں بے انتہا دولت پیدا ہوئی‘ اس سے لاکھوں عوام مستفید ہوئے اور ایک نیا دولت مند طبقہ پیدا ہوا ہے جس میں سیاسی حکمرانوں کے علاوہ نوکر شاہی اور ریاست کے دوسرے اداروں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ذریعے کھربوں مالیت کی جائیدادیں بنائی جا رہی ہیں۔ حکمران جماعت کے 1985 کے ہمنوا ارکان اسمبلی اور وزرا سرگوشیوں میں اشارے دے رہے ہیں کہ نواز حکومت چند ہفتوں کی مہمان ہے۔ اسی طرح سفارت کاروں کی افطار پارٹی میں حکومت کے حامی ایک صحافی نے ایک عرب ملک کے سفیر کو سرگوشیوں میں بتایا کہ وزیر اعظم اپنا بستر لپیٹ چکے ہیں، اور عرب ملک کے اس سفیر نے اس متحرک صحافی کا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے جا کر ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ نواز حکومت کے ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے اپنی کمانڈو حکمتِ عملی کے تحت ایسے اشخاص کو وزیر اعظم نواز شریف کے ارد گرد کھڑا کر دیا جنہوں نے انہیں (وزیر اعظم نواز شریف کو‘ تاریک گلی میں لا کھڑا کیا اور تمام اداروں سے محاذ آرائی شروع کروا دی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کی سیاسی فلسفہ کے تحت آصف علی زرداری نے اپنے دوستوں کو عمران خان کے ارد گرد کھڑا کر دیا ہے۔
عید گزر چکی۔ اب لگتا ہے کہ ملک کی سیاسی فضا انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ عمران خان کے اس طرح کے بیانات کہ جے آئی ٹی کے فیصلے پر تحریک انصاف عمل درآمد کرائے گی، سے فضا مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔ پاناما کیس کے پیچیدہ معاملے پر عمل درآمد کرانا عدالت عظمیٰ اور اداروں کا کام ہے جو آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت سپریم کورٹ کے تابع ہیں۔ اس طرح کے بیانات سیاسی تقسیم کو گہرا کر دیتے ہیں اور محاذ آرائی کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ فیصلوں کو متنازع بھی بنا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جن آٹھ اہم شخصیات کے عدلیہ کے خلاف مہم چلانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، عدالت عظمیٰ ان کے کیس آئین کے آرٹیکل 63-F کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا سکتی ہے اور گراؤنڈ مضبوط ہو کہ انہوں نے عدلیہ کی تضحیک کی ہے تو ان کے خلاف مضبوط بنیادوں پر کارروائی ہو سکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں