"KDC" (space) message & send to 7575

خاموشی توڑ دیں!

ریمنڈ ڈیوس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں جو کچھ لکھ دیا ہے‘ اس کے بعد مجھے کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیںہے؛ البتہ میں کچھ معاملات کو زیر نظر تحریر میں قارئین کے سامنے لانا چاہوں گا۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ ریمنڈ ڈیوس کی پُراسرار طریقے سے رہائی ہماری قومی منافقت کا بہت بڑا مظاہر اور مثال ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں جنرل پاشا کا نام لیا ہے۔ میرے خیال میں بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سیشن جج کی عدالت میں کھڑے ہو کر جنرل پاشا نے جو کردار ادا کیا اس کی مکمل تحقیق ہونی چاہئے کیونکہ ریمنڈ ڈیوس کے کیمروں اور دوسری سرگرمیوں سے یہ ثابت ہوا کہ وہ سفارت کار نہیں بلکہ بلیک واٹر کا جاسوس تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ جنرل شجاع پاشا نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان کے بعض مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے بارے میں سچ کا جو آئیڈیا پیش کیا‘ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی ریکارڈنگ سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس پر تحقیقی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی سرگزشت میں بہت سی باتیں درست ہو سکتی ہیں‘ لیکن اس میں تضادات بھی بہت ہیں۔ اس نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ مقتولین کے ورثا کو دیت کی ادائیگی جو تقریباً 24 کروڑ روپے تھی، کس نے ادا کی۔ یہ اس سانحے کا اہم نکتہ تھا۔ دوسری جانب چھوٹے چھوٹے فوائد کی خاطر پاکستان کی عزت و ناموس پر سمجھوتہ کرنے والے کرداروں کو زندہ رکھنے والے معززین بن کر سامنے آئے ہیں کیونکہ وہ اس کی رہائی کے حوالے سے خاموش رہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ ان کی رہائی کا پورا آپریشن جنرل پاشا کے پاس تھا اور صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے آپریشن میں شریک رہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وقت امریکہ کے سامنے جھکنے کا نہیں ہے۔ حاصل کلام یہی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے کتاب میں دو نوجوانوں کو قتل کرنے کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا۔ پاکستان کے سابق مستقل مندوب اسد منیر نے جو موقف اختیار کیا وہ حیران کن ہے۔ ان کا کہنا ہے: حقیقت یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے دو نوجوان قتل کر دیئے‘ اس نے سیلف ڈیفنس میں ان آدمیوں کو مارا تھا۔ اب سوالات یہ اٹھتے ہیں کہ دو عام پاکستانیوں‘ جو انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، کی ریمنڈ ڈیوس سے کیا دشمنی تھی اور عسکری قیادت نے ابھی تک جنرل پاشا کے اس وقت کے کردار کے بارے میں وضاحتی بیان کیوں جاری نہیں کیا کہ وہ کورٹ روم میں ایڈیشنل سیشن جج کے ساتھ کیوں موجود تھے؟ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظرِ عام پر آنے کے بعد کہرام مچا ہوا ہے لہٰذا نوٹس لینا چاہئے اور اس پراسراریت سے پردہ اٹھایا جانا چاہئے کہ 24 کروڑ روپے کہاں سے اور کس اکاؤنٹ سے آئے اور کس نے ادا کئے؟ میرے خیال میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے عسکری اداروں کے ساتھ یک جہتی کرنے والے محب وطن حلقوں کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کریں! ریمنڈ ڈیوس نے پاک آرمی کے آپریشنوں ضربِ عضب اور ردالفساد میں کامیاب ہونے کے بعد دنیا کی نظریں ہٹانے کے لئے پاک فوج کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈا کے طور پر اس کتاب کو نہایت حساس وقت پر متعارف کیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ سے باخبر رہنے کی وجہ سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان میں موجود بلیک واٹر کی تمام صلاحیتوں کے بارے میں‘ اس کی محفوظ جگہوں کے بارے میں، اس کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ساری معلومات حاصل نہیں کی گئی تھیں۔ امریکی سفارت خانے نے ریمنڈ ڈیوس کو امریکی کھانے کھلانے کی درخواست کی تھی‘ اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ یہ کھانا ہم خود پہنچا دیا کریں گے، لیکن میرے خیال میں آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس کو زہر دینے کے ممکنہ اقدام کی بو سونگھ لی تھی اور امریکی سفارت خانے کے عزائم کو بھی بھانپ لیا تھا۔ اسی لئے امریکی سفارت خانے کی اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے پہلے پاکستان نے بلیک واٹر کا خاتمہ کروا دیا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ میں ایک خاتون کے ساتھ بد تمیزی کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا اور وہاں وہ کئی سال جیل میں رہا۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی یہ کتاب ریمنڈ ڈیوس کی لکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اسے امریکی سی آئی اے نے ترتیب دیا، تاکہ مذموم مقاصد کے تحت پاکستان آرمی اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کو بدنام کیا جا سکے اور ان دونوں اداروں کی کامیابیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا جا سکے۔ مجھے میرے استاد محترم پروفیسر مرغوب احمد صدیقی، صدر شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی اور پروفیسر وارث میر نے صحافت کے رموز سمجھاتے ہوئے بتایا تھا کہ حالت جنگ میں کیسے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کی رائے بدلنے میں کردار ادا کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ کتاب ہمیشہ کہانی کی شکل میں لکھی جاتی ہے کیونکہ کہانی، لطائف شعور کی گہرائیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ میری کتاب ذرائع ابلاغ اور تحقیقی طریقے، ابلاغ عامہ اور فن تشہیر مقتدرہ قومی زبان نے شائع کی ہے۔ اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملات میں پنجاب حکومت کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بقول ان کے ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں ان کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو مشورہ دیا گیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں سچ بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے ورثا کو15 اور 16 مارچ کی درمیانی رات کو غائب کروایا گیا تھا اور مبینہ طور پر پنجاب حکومت کے ایما پر معاملات طے ہوئے تھے۔ جیل میں سماعت تین گھنٹے تک ہوتی رہی اور اس دوران ایڈیشنل سیشن جج کے روبرو پنجاب کے تمام پراسیکیوٹرز خاموش رہے‘ البتہ آئی ایس آئی کے وکیل مقتولین کے وارثان سے سوال و جواب کرتے رہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں کردار ادا کرکے ذاتی مفادات کو بچا کر ریاست کو کمزور کر دیا گیا۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ سوویت یونین کا جب شیرازہ بکھر رہا تھا تو ان کے اہم اداروں میں نا اہل، مکر و فریب کے پیکر بیوروکریٹس تعینات کئے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی نا اہلی سے سوویت یونین کو زوال پذیر بنایا تھا۔ اسی طرح لگتا ہے کہ کچھ نادیدہ قوتوں کی جانب سے پاکستان کے اداروں کو کمزور اور متنازعہ بنانے کی کوئی مہم جاری ہے۔
پاناما پیپرز کیس کا معاملہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واضح ہوتا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ عدالت عظمیٰ جلد تحقیقاتی پیپرز کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔ اس وقت تک ریمنڈ ڈیوس کی کتاب جیسے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے عوامل سے بچنے کی اشد ضرورت ہو گی۔ البتہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں جو انکشافات کئے گئے ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں خاموشی توڑنا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں