"KDC" (space) message & send to 7575

نااہلی اور پارٹی کی سربراہی

جمہوری معاشرہ میں شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے انتخابی عمل میں اصلاحات ایک مسلسل عمل ہے مگر ہمارے ہاں انتخابی اصلاحات کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 100 کے قریب پارلیمانی کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود انتخابی قوانین میں اصلاحات کا خیال ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوپا رہا،ابھی تک کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آسکا ۔ 25 جولائی 2014 کو قومی اسمبلی کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے 33 اراکین شامل تھے۔ اس کمیٹی نے تین ماہ کے عرصے میں انتخابی اصلاحات پیش کرنا تھیں‘ تاہم تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اب تک کوئی ٹھوس کام سامنے نہیں آ سکا۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مسودے میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجویز پیش کی گئی ہے، لیکن ان تمام اقدامات کے لئے بر وقت قانون سازی اور فنڈز ضروری ہیں، اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اصلاحات پر عمل درآمد کے لئے تمام قانونی ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں، لیکن اعداد و شمار کی تجدید اور نئے قوانین کی منظوری کے لئے کمیشن کو پارلیمنٹ اور متعلقہ حکومتی اداروں سے بروقت معاونت نہیں مل رہی جس پر الیکشن کمیشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ اب معیاری اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا انحصار حکومت اور پارلیمنٹ کے بروقت قانونی اور انتظامی اقدامات پر ہے۔ مٔوثر انتخابی اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹیں بر وقت دور نہ کی گئیں تو شفاف اور معیاری الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے ایسے سنگین انتخابی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو سیاسی افراتفری کا باعث بنیں گے، ریاست کے مفاد میں ہے کہ انتخابی اصلاحات کے نفاذ کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتیں‘ ادارہ شماریات اور نادرا جیسے ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں تاکہ انتخابات شفاف انداز میں کرائے جائیں۔
مجوزہ انتخابی اصلاحات کے تحت کاغذات نامزدگی کا فارم اور کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا طریقہ کار تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں۔ حکمران جماعت سمیت انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی میں شامل تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا موجودہ طریقہ کار تبدیل کر کے صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا جاری کردہ دولت ٹیکس کے گوشوارے کی نقل الیکشن کمیشن کو فراہم کی جائے، دولت کا گوشوارہ جمع کرانے کی صورت میں زیر کفالت افراد کے نام جائیداد اور بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر نہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ دولت ٹیکس گوشواروں کے سٹرکچر کو تبدیل کرنے کے اختیارات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس ہیں۔ نیا قانون بننے کے بعد الیکشن کمیشن ارکان پارلیمنٹ سے اثاثوں کی موجودہ مالیت اور پارلیمنٹ کے ارکان کی بیگمات کے نام جائیدادوں کی تفصیلات نہیں پوچھ سکے گا، پارلیمنٹ کے ارکان اس بات پر بھی متفق ہو گئے ہیں کہ ان کے اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنے کا معاملہ انتخابی اصلاحات کے نئے بل میں بھی شامل نہیں ہوگا۔ 
وفاقی وزیر قانون اور پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن کمیشن کے اعتراض کے باوجود فیصلہ کیا ہے کہ کاغذات نامزدگی فارم کی تیاری کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں رہے گا۔ قانون ساز فیصلہ کریں گے کہ انتخابات کے لئے نامزدگی فارم ان کے تیار کردہ خاکے کے مطابق تیار کئے جائیں، انتخابی اصلاحات کمیٹی کے دیگر ارکان جن کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے انہوں نے اپنے مفادات کو ہی مد نظر رکھا ہے اور ایسی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی جس سے مستقبل قریب کے انتخابات میں شفافیت کا عنصر شامل ہو جائے، کاغذات نامزدگی کے فارم تیار کرنا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں ہے اور سپریم کورٹ واضح ہدایات دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ایسے قوانین جو رولز بنانے کے زمرے میں آتے ہیں، اس کے دائرہ اختیارات میں آتے ہیں۔ مئی 2013 کے انتخابات کے انعقاد کے دوران الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کاغذات نامزدگی کے فارم خود ہی بنوائے تھے، اب صورت حال سنگین ہو گئی ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قدغن لگا کر ان کی آزادانہ حیثیت کو ہی چیلنج کر دیا ہے! الیکشن کمیشن کے تیار کردہ مجوزہ کاغذات نامزدگی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے متبادل فارم سے منسلک کرنے سے ارکان پارلیمینٹ کے بارے میں ان کی جائیداد، بیرونی ممالک میں اثاثے اور دیگر بنک اکاؤنٹس کو جانچ پڑتال کرنے کا طریقہ رک جائے گا۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن کو صدر مملکت کو ریفرنس بھجوا کر ان سے مداخلت کی استدعا کرنی چاہئے، کیونکہ یہی روایت بھارتی الیکشن کمیشن بھی اپناتا ہے جب انتخابی قوانین کے بارے میں ان کا اور انڈین حکومت کے نقطہ نظر میں تصادم ہو جائے تو بھارتی صدر کی ہی مداخلت سے از سر نو قانون سازی کی جاتی ہے! موجودہ الیکشن کمیشن کے ارکان با وقار اور غیر جانبدار ہیں اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)سردار محمد رضا خان با اصول اور دیانتدار جج رہے ہیں ، لہذا وہ اپنے آئینی و قانونی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے صدر مملکت سے مداخلت کی استدعا کریں اسی طرح نادرا کے معاملات جس انداز سے الیکشن کمیشن سے عدم تعاون کر رہا ہے، اس کے بارے میں بھی صدر مملکت کے آفس کو اعتماد میں لیا جائے۔
پاناما کیس کی گرد اڑی ہے تو بہت سوں کا چہرہ نمایاں ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران خاندان کے سارے ارکان ہی اس میں ملوث ہیں۔ کوئی شخص ایسا نہیں جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ اس ساے عمل سے ملک برباد ہو رہا ہے جبکہ حکمران خاندان کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ وہ اپنے اثاثے بڑھانے پر لگے ہیں۔ انہیں ملک سے کوئی سروکار نہیں۔ معیشت کا دیوالیہ بیٹھ گیا ہے۔ روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کی قدر و قیمت بڑھانے کے لئے حکمرانوں کو اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔ لیکن انہیں لوٹ مار سے ہی فرصت نہیں ملی۔ اورنج ٹرین جیسے پراجیکٹس عوام کے بنیادی مسائل دور نہیں کر سکتے۔ البتہ اس سے حکمرانوں کی اپنی جیب ضرور بھر سکتی ہے جس کا کوئی اختتام ہی نظر نہیں آ رہا۔
پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق رحمن ملک، اسحاق ڈار اورکیپٹن صفدر کی جانب سے جو بیانات جمع کرائے گئے وہ گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی تھے، بادی النظر میں ان پر آرٹیکل 63 (۱۔جی) لاگو ہونے کے امکانات موجود ہیں، اسی طرح شہباز شریف گلف سٹیل ، حدیبیہ اور التوفیق کیس میں ملوث رہے‘ کوئین بینچ ڈویژن برطانیہ کے مطابق شہباز شریف بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث رہے۔ حمزہ شہباز نے 1995 سے 1998 تک ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس میں رہے ، العزیزیہ سٹیل ملز جدہ میں شہباز شریف بھی شراکت دار ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں نواز شریف ، اسحاق ڈار، شہباز شریف، حمزہ شہباز، رحمن ملک غلط بیانی، اور ریکارڈ میں تحریف کرنے اور سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہونے پر آرٹیکل 63-1 کے تحت نا اہل ہو سکتے ہیں ۔وفاقی کابینہ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد کر کے سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے، ان حالات میں وزیر اعظم نواز شریف نااہلی کی صورت میں اپنی جماعت کے سربراہ بھی نہیں رہ سکیں گے کیونکہ پولیٹیکل پارٹیز پارٹی آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 4 اور 5 کے مطابق کسی پارٹی کا ممبر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں