"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات پر توجہ دی جائے!

انتخابی اصلاحات کا حکومتی بل، آئندہ الیکشن کو صاف و شفاف بنانے کے سلسلے میں مطلوبہ اصلاحات لانے میں ناکام رہا ہے۔ حکومت انتخابی اصلاحات کے نام پر جو بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہتی ہے، اس میں آئندہ انتخابات میں دھاندلی، بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں روکنے کے لئے کوئی نئی بات‘ تجویز یا مشورہ نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انتخابات کے موجودہ نظام میں چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت برائے نام اور ایک بے بس شخص کی سی ہے‘ جس کے پاس کوئی آئینی، قانونی اختیار نہیں، یعنی اگر الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کی اکثریت کسی کامیاب رکن اسمبلی کو ناکام قرار دے دیں‘ تو چیف الیکشن کمشنر بھی اس کامیاب رکن اسمبلی کو انصاف فراہم نہیں کر سکیں گے۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کے لیڈر آف اپوزیشن بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے ان کی پارٹی کے چند ارکان کے الیکشن کو، سابق ارکان الیکشن کمیشن نے مبینہ طور پر کالعدم قرار دے کر دوسرے نمبر پر آئے ہوئے امیدواروں کو کامیاب قرار دے دیا تھا۔ عمران خان چونکہ حادثے کے بعد متحرک نہیں تھے اور ہسپتال میں زیر علاج تھے چنانچہ وہ اور ان کے رفقا ایسی باریکیوں کو نہ سمجھ سکے اور سابق چیف الیکشن کمشنر بھی متعدد امراض کی وجہ سے ذہنی طور پر مفلوج سے تھے۔ یادداشت بھی ان کی تقریباً جواب دے چکی تھی۔ لہٰذا وہ بھی صورتحال کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہ سکے اور حالات کا درست اندازہ نہ لگا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس وقت کی انتظامیہ کو غیر ملکی ڈونرز نے گھیرا ہوا تھا اور اس بارے میں سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن کے سربراہ‘ اور ان کی ٹیم نے الیکشن کمیشن کی بے قاعدگیوں کے بارے میں جو نشاندہی کرائی تھی‘ ان سے بھی موجودہ انتخابی اصلاحات کے لئے استفادہ نہیں کیا گیا۔ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر سو سے زائد اجلاس کئے، جن پر قومی خزانے سے سو کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد‘ تیار اور تجویز کی گئی انتخابی اصلاحات کی دستاویزات کو پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا۔ سول سوسائٹی اور کئی ادارے انتخابی اصلاحات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان سے بھی ان اجلاسوں کی کارروائیوں کو خفیہ اور پوشیدہ رکھا گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے بجائے آئندہ انتخابات میں دھاندلی کرانے کے طریقہ کار پر کام ہو رہا تھا، جیسے 1975 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پُراسرار طریقے سے آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خفیہ منصوبہ بندی الیکشن کے ماہر ملک حیات تمن کے ذریعے کروائی تھی۔ مجھے وفاقی وزیر قانون کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں اور نہ ہی ان کے مجوزہ بل پر اعتماد ہے۔ میں ان سطور کے ذریعے مطالبہ کرتا ہوں کہ پارلیمانی اصلاحاتی کمیٹی کی اب تک کی تمام کارروائی کو عوامی مفاد میں اوپن کیا جائے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی جان سکے کہ انتخابی اصلاحات کے نام پر قوم کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ بدقسمتی سے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی اور انتخابی پارلیمانی کمیٹی کے اپوزیشن ارکان نے انتخابی اصلاحات کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا‘ اور اسے سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ اب بھی ان کے پاس موقع ہے کہ حکومت کی مجوزہ انتخابی اصلاحات کو سینیٹ کے ذریعے مسترد کروا دیں۔ 
آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے ضمن میں ماضی میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات دور کرنے اور خامیوں سے پاک جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی نے طویل غور و خوض کے بعد بالآخر انتخابی اصلاحات کی منطوری دے دی ہے، جو حتمی منظوری کے لئے اب بل کی صورت میں پارلیمنٹ میں پیش ہونے جا رہا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ موجودہ سیاسی حالات اور پاناما کیس کے فیصلے کے بعد متفقہ اصلاحات کے بغیر حکومت کی وضع کردہ انتخابی اصلاحات کے تحت ہونے والے الیکشن کے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور دیگر پارلیمانی اپوزیشن جماعتیں اس اصلاحاتی بل کو یکسر مسترد کر دیں گی! میرا خیال یہ ہے کہ پاناماکیس کے فیصلے کے بعد اب نئے سرے سے کابینہ تشکیل دی جائے گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ان انتخابی اصلاحات کا از سرِ نو جائزہ لے اور تمام جماعتوں کی تائید سے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرایا جائے! مجوزہ انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد دیگر ارکان کو بحث میں حصہ لینا چاہئے اور ان سے جو غفلت، اور کوتاہی ہوئی ہے اس کے ازالے کے لئے اپنی تجاویز دینا چاہئیں تاکہ خامیوں سے پاک، جامع اور سب کے لئے قابل قبول انتخابی قوانین بنانے میں مدد ملے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیاں دہرائی نہ جا سکیں۔
مجوزہ انتخابی اصلاحات میں اہم خامیوں کی میں نشان دہی کر چکا ہوں۔ ان میں کاغذاتِ نامزدگی کے فارموں میں حکومت اپنی منشا کے مطابق ترمیم کر چکی ہے، اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رولز کے مطابق اب وہ حکومت کے تابع ہو چکے ہیں۔ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدواروں سے جو غیر متعلقہ سوالات پوچھے جاتے تھے‘ ان کو نکال دیا گیا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تیار کردہ دولت ٹیکس کی شیٹ لگانے سے مشروط کر دیا گیا ہے! اس فیصلے کے خلاف ہماری سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنی چاہئے اور قومی اسمبلی میںاحتجاج کرنا چاہیے۔ انتخابی اصلاحات میں پارلیمنٹ کے ارکان پر ہر سال 30 ستمبر کو اثاثے جمع کروانے کی اہم قانونی ذمہ داری عاید ہوتی تھی، عوامی نمائندگی ایکٹ 42-A میں ترمیم کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو ہی ختم کر دیا ہے! اس ایکٹ کی روح کے مطابق اگر پارلیمنٹ کے ارکان ان گوشواروں میں حقائق چھپانے کے جرم میں ملوث پائے جاتے تھے تو ان کے خلاف بدعنوانی کے تحت مقدمہ درج کرانے کے اختیارات موجود تھے جن کو عوامی نمائندگی ایکٹ 78 اور 83 کے تحت تین سال کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ اسی طرح 15 اکتوبر کو گوشواروں کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اس میں رد و بدل کے اختیارات موجود نہیں تھے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس موثر اختیار موجود تھا کہ قائق چھپانے کے جرم میں پارلیمنٹ کے ارکان کے خلاف بدعنوانی کے تحت مقدے دائر کر سکتا تھا۔ اب مجوزہ بل میں ان گوشواروں کی اہمیت ختم کرتے ہوئے گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ 31 دسمبر کر دی گئی ہے‘ بدعنوانی کی شق خارج کر دی گئی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گوشواروں میں جب چاہیں ترمیم کرا لیں! یہ فیصلہ بدنیتی سے حکومت کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کے مشورے سے کرایا گیا ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں کے ارکان نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ذریعے من پسند اصلاحات رائج کرائی ہیں۔ اب چونکہ پاناما کیس کی وجہ سے ملک کی سیاست میں بے چینی ہے تو اپنا دامن چھڑانے کے لئے انتخابی اصلاحات سے لا تعلقی کے اعلامیے جاری کئے جا رہے ہیں‘ جو میرے خیال میں مناسب بات نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں