"KDC" (space) message & send to 7575

تاحیات نااہلی

سپریم کورٹ نے نواز خاندان کے خلاف پاناما لیکس کے نتیجہ میں دس ماہ پرانے مقدمے میں نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا ہے، عدالت نے فیصلے میں نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن، حسین، بیٹی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، سمدھی اسحاق ڈار، موسیٰ غنی، کاشف مسعود قاضی، سعید احمد (سابق صدر نیشنل بینک)، شیخ سعید اور جاوید کیانی کے خلاف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے فراہم کردہ مواد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے مرحلے میں نواز شریف کو امین‘ صادق اور نیک شہرت کا حامل نہ ہونے کے باعث نا اہل قرار دیا۔ باقی الزامات قومی احتساب بیورو اور احتساب عدالت کے سپرد ہو چکے ہیں۔ احتساب عدالت نے چھ ماہ کے اندر ان کا فیصلہ کرنا ہے۔ الزامات سنگین ہیں؛ چنانچہ نظر یہ آ رہا ہے کہ اگلے چھ ماہ شریف خاندان شعلوںکی لپیٹ میں رہے گا۔ احتساب عدالت سے سزا کا امکان بھی خاصا واضح ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب اس سارے عمل کی نگرانی کریں گے جبکہ احتساب عدالت کو مواد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے فراہم کر دیا ہے اور جلد دس سے جو مواد سامنے آئے گا، اس سے پوری قوم شریف خاندان کی میگا کرپشن اور بیرونی خفیہ ریشہ دوانیوں کے بارے میں آگاہ ہو جائے گی۔
نواز شریف کی تاحیات نا اہلی کے عدالتی فیصلے کے ملک کے مستقبل کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ہی خاقان عباسی عبوری وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ اس طرح فی الحال ملک میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت رہے گی اور نئے وزیر اعظم نے نواز شریف کی پالیسیوں کو ہی آگے لے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ وہ نواز شریف سے مشاورت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے یہ تاثر ختم ہو گیا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعظم کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور معصوم عوام کی خواہش ہے کہ اب پاکستان کرپشن سے پاک ہو جائے، لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد سیاست دانوں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور بعض ارب پتی اینکر پرسنز‘ جو غیر ملکی امداد سے عوام کی رائے کو مفاد پرست سیاست دانوں کے حق میں بدلنے کے ماہر ہیں، کے خلاف کارروائی کا راستہ کھل گیا ہے!
نواز خاندان کے جتنے ریفرنس سپریم کورٹ نے بھیجے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے نواز شریف، اسحاق ڈار، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن (ر) صفدر، مریم نواز اور دیگر کو ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لینی چاہئے کیونکہ جن دفعات کے تحت یہ ریفرنس بھیجے گئے ہیں ان میں گرفتاری ضروری سمجھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف عوام کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فقط دبئی اقامہ رکھنے پر نا اہل ہوئے ہیں کرپشن پر نہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے نواز شریف کی نا اہلی دو حصوں میں منقسم ہے، ایک الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے اور جھوٹے حلف نامے کا مرتکب ہونے کی بنا پر‘ اور دوسرا نیب ایکٹ کی زد میں آنے والے منی لانڈرنگ‘ ٹیکس چوری اور بیرونی ممالک میں مشکوک کمپنیوں کے قیام اور اربوں روپے کی نقد رقم کے تحائف ادھر سے ادھر کرنے پر؛ چنانچہ نیب سے کہا گیا ہے کہ وہ مقدمہ تیار کرکے چھ ہفتوں میں احتساب کورٹ میں پیش کرے‘ جو چھ ماہ میں فیصلہ دے۔ سابق وزیر اعظم پہلے مرحلے میں صادق نہیں رہے، امین والا معاملہ مقدمے سے منسلک ہے۔ حکومت کے مراعات یافتہ میڈیا پرسنز اور جان کیری لوگر بل سے امداد حاصل کرنے والے میڈیا ہاؤسز نواز شریف کو مظلوم بنانے سے گریز کریں۔ میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ احتساب عدالت میں جوں جوں مقدمات آگے بڑھیں گے، شہباز شریف توں توں نواز شریف سے پیچھے ہٹتے جائیں گے۔
آرٹیکل (1)62 ایف کے تحت ایسے شخص پر عوامی عہدے کے انتخاب میں شریک ہونے پر تا حیات پابندی لگتی ہی ہے۔ جہاں تک فیصلے پر نظر ثانی کا تعلق ہے تو اس کے بہت کم امکانات ہیں کیونکہ نظر ثانی کی پٹیشن بھی وہی بینچ سنے گا‘ جس نے اصل فیصلہ سنایا تھا۔ عملی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ نظر ثانی میں صرف تکنیکی نوعیت کی غلطیوں کو درست کیا جاتا ہے جب کہ بنیادی فیصلے میں تبدیلی نہیں کی جاتی، تاہم کچھ موقعوں پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نظر ثانی کی درخواستوں پر بنیادی فیصلے ذاتی مفاد میں تبدیل کئے کہ نواز شریف نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، چنانچہ نواز شریف اور شہباز شریف کی وطن واپسی پر ان کی نا اہلیت ختم کر دی گئی تھی‘ جو مسلمہ اصولوں سے انحراف تھا۔ اسی طرح آرٹیکل 45 کے تحت صدر کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی عدالت، ٹربیونل یا دیگر اتھارٹی کی جانب سے دی گئی سزا پر معافی دے سکتا ہے‘ نرمی برت سکتا ہے، اسے ختم، معطل یا منسوخ کر سکتا ہے، تاہم نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے پر سربراہ مملکت بھی ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں اس کا اختیار نہیں کہ وہ آرٹیکل (F)(1) 62 کے تحت عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی جانے والی نا اہلیت کو معطل کر سکیں۔ میں قارئین کو نواز شریف کی لیگل، سیاسی حکمت عملی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کرائی جائیں، ان کے وکلا کو بھی جعلی دستاویزات کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تاکہ اس کی بنیاد پر سپریم کورٹ ان کو کرپشن کیسز میں نا اہل قرار دے دے اور بعد ازاں ان کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق حاصل رہے اور معزز ججز کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کمیٹی میں ریفرنسز دائر کر دیئے جائیں کہ انہوں نے ٹرائل کورٹ میں ان کے کرپشن کیسز بھجوانے کے بجائے از خود آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت نا اہل قرار دے دیا۔ اس طرح ان کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرکے حکم امتناعی حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی۔ لیکن سپریم کورٹ نے نواز شریف کی سازشی تھیوری کو ناکام بناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل (F) (1) 62 کے تحت تا حیات کے لئے نا اہل قرار دے دیا جس کے خلاف اپیل دائر نہیں کی جا سکتی۔
راجہ فاروق حیدر وزیر اعظم آزاد کشمیر کو نواز شریف کی محبت میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ہدف تنقید بنانا زیب نہیں دیتا۔ ان کے سیاسی مرشد نواز شریف نے اپنے دور وزارتِ عظمیٰ میں کبھی بھی بھارت کی مذمت نہیں کی۔ راجہ فاروق حیدر‘ سردار مسعود خان اور صدر مملکت ممنون حسین کی توجہ ایک تاریخی واقعہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سرگزشت آتشِ چنار میں لکھا ہے کہ انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کے کشمیر میں رائے شماری کرانے سے گریز اور جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی سے روگردانی کرنے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر بیان جاری کر دیا تھا کہ اگر ان کا یہی رویہ رہا تو وہ کسی بھی ملک سے الحاق کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ان کے اس بیان کے نشر ہوتے ہی اسی رات پنڈت جواہر لال نہرو نے ان کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے تہاڑ جیل بھجوا دیا تھا‘ اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم مقرر کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں