"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ممنوعہ ذرائع سے سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کی جانچ پڑتال کا اختیار حاصل ہے۔ ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لئے یا نہیں، ہر سیاسی جماعت کو حساب دینا ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کو اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے بعد فنڈز موصول کرے تب بھی الیکشن کمیشن پوچھنے کا پابند ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ چھپانے پر اور ممنوعہ ذرائع سے رقوم حاصل کرنے کے الزام میں کیس زیر سماعت ہے۔ پی ٹی آئی کے وکلا کے مطابق الیکشن کمیشن ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ فنڈز کی تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتا۔ غیر ملکی ذرائع سے حاصل کردہ فنڈز کو سیاسی معاملات کے لئے استعمال کرنا ایک متنازعہ بحث ہے۔ اس کا فیصلہ عدالت خود کرے گی۔ قانون کی رو سے دوسرے ممالک سے ملنے والے فنڈز کا ریکارڈ رکھنا سیاسی جماعتوںکی ذمہ داری ہے۔ ویسے بھی جب سیاسی جماعتوں پر غیر ملکی فنڈز کی وصولی کے حوالے سے سوال اٹھائے جاتے ہیں اور کئی سیاسی جماعتوں پر یہ رقم منفی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے الزامات لگتے بھی رہے ہیں تو ان حالات میں یہی مناسب لگتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں‘ جو بیرون ملک سے رقوم حاصل کرتی ہیں‘ ان رقوم کا حساب کتاب ضرور رکھیں تاکہ کسی بھی صورت حال میں جب ان سے اس کا حساب طلب کیا جائے تو ان کے پاس آمدن اور اخراجات کا ریکارڈ موجود ہو، ورنہ اس طرح کی صورت حال سامنے آ سکتی ہے جس کا سامنا اس وقت تحریک انصاف کو ہے۔ ممنوعہ ذرائع سے اگر کسی جماعت نے فنڈز حاصل کئے ہیں تو انہیں اس کا حساب دینا ہو گا تاکہ سیاست میں بیرونی سرمائے کا عمل دخل بند کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔
غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہئے اور یہ دیکھا جانا چاہئے کہ جماعتیں فنڈز کا کیا استعمال کرتی ہیں۔ ان خدشات کو بے جا قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اگر کوئی دوسرا ملک، ادارہ، این جی اوز کسی پاکستانی پارٹی کو کروڑوں کے فنڈز دیتی ہیں تو اس کی یہ سرپرستی بلا وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے عوض اگر ہماری کوئی جماعت کسی غیر ملکی قوت‘ ادارے یا نظام کے لئے لابنگ کرتی ہے یا ملکی مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے تو یقینی طور پر ایسا ملک و قوم اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔ بیرون ملک مقیم سیاسی جماعتوں کے کارکن محض چند سو ڈالر سے زیادہ پارٹی فنڈز یقینی طور پر نہیں دے سکتے، اس لئے الیکشن کمیشن کو بھی چاہئے کہ وہ اس معاملے کی سختی سے جانچ پڑتال کرے اور یہ بات یقینی بنائے کہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز کے معاملے میں شفافیت کو مدنظر رکھا جائے گا۔ ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور بگڑے ہوئے معاملات سے ہٹ کر وزیر اعظم کو انتخابی اصلاحات سے منسلک معاملات پر موثر قانون سازی پر توجہ دینا چاہئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے والی پارٹی کے سربراہ کو عوامی عہدہ کے لئے نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ غیر ملکیوں سے کسی صورت فنڈز نہیں لئے جا سکتے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے رولز 6 کے تحت ایسی پارٹیوں کے فنڈز ضبط کرکے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرانے کا مجاز ہے۔ ممنوعہ رقم کو ضبط کرنے کے لئے الیکشن قوانین موجود ہیں۔ ابھی تک ایسی جامع قانون سازی نہیں ہوئی‘ جس کے تحت غیر ملکی فنڈنگ کا راستہ روکا جا سکے۔ اسی لئے غیر ممالک سے ملنے والی فنڈنگ چھپائی جاتی ہے اور فلڈ گیٹ کھلا ہوا ہے۔ بہرحال غیر ملکی ناجائز فنڈنگ کا دروازہ بند کرنے وقت آ گیا ہے۔ ایسی سیاسی جماعتیں جو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فنڈز لیتی ہیں‘ ان کا حساب الیکشن کمیشن کو لینا چاہئے۔
وزیر اعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادگان کے خلاف لندن فلیٹس، عزیزیہ سٹیل مل اور آف شور کمپنیوں جبکہ اسحاق ڈار کی آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں ریفرنس دائر کئے جا رہے ہیں، تاہم حدیبیہ ملز کا ریفرنس روک لیا گیا ہے۔ میری رائے میں نیب کو ان ریفرنسز کے حوالے سے ایک واضح ٹائم فریم دیا گیا ہے۔ اس مقررہ مدت کے اندر ریفرنسز فائل کئے جائیں گے اور ان کے نتیجہ میں فیصلہ سامنے آئے گا۔ اگرچہ اس عمل میں کئی ماہ لگ جائیں گے، تاہم امید کی جا سکتی ہے کہ برآمد ہونے والا نتیجہ ملک و قوم کے لئے سود مند ہو گا۔ بعض حلقوں کی طرف سے تواتر کے ساتھ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو صرف نا اہل قرار دیا گیا ہے ان پر بدعنوانی کا دھبہ نہیں۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ صادق اور امین نہ رہنے والا جھوٹا اور بددیانت ہوتا ہے، پاک صاف نہیں۔ نہ ہی اسے عوامی نمائندگی اور کوئی سرکاری منصب سنبھالنے کا اہل سمجھا جاتا ہے۔ جس اقامے اور بیٹے کی کارپوریشن سے تنخواہ نہ لینے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں، اس کی حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سے دوبئی اور وہاں سے لندن رقوم آتی جاتی رہی ہیں‘ اس منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات احتساب کورٹ کرے گی۔
نواز شریف کی نااہلی پر مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ بڑا خطرناک ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اندازہ نہیں کہ اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے اور انہیں ساتھ رکھنے کی خاطر اس نے کس قدر خطرناک لائن اختیار کر لی ہے۔ ان کے قریبی ساتھی اپنی گفتگو میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاناما کیس نواز شریف کے خلاف سازش ہے تو مجبوراً فوج کے ترجمان کو وضاحت کرنا پڑی کہ فوج کسی سازش کا حصہ نہیں ہے۔ اس وضاحت کے بعد بھی اشاروں کنایوں میں اور کبھی کھلم کھلا فوج کی مداخلت کی بات کی گئی اور نواز شریف نااہلیت کے بعد سیاسی جماعت کی سربراہی سے محروم ہو گئے ہیں تو ان کے کارکن تصادم کی راہ پر نکل پڑے ہیں۔
شہباز شریف وزیر اعظم بننے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا ریموٹ کنٹرول نواز شریف کے پاس ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو باوقار طریقے سے وزارتِ عظمیٰ برقرار رکھنی چاہئے۔ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا مناسب نہیں لگتا۔ اندیشہ ہے کہ اس طرح حکمران جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی‘ جیسے شوکت عزیز کو وزیر اعظم منتخب کرا کے صدر پرویز مشرف نے پاکستان مسلم لیگ کی بے توقیری کی تھی‘ جس کے نتیجہ میں فروری 2008 میں پاکستان مسلم لیگ صرف 35 ارکان قومی اسمبلی تک محدود ہو گئی تھی کیونکہ شوکت عزیز نے بطور وزیر اعظم پاکستان مسلم لیگ کی تنظیم نو میں عملی طور پر دلچسپی نہیں لی تھی۔ وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کی کابینہ کے ارکان اندرونی سیاست سے لاتعلق رہے اور صدر پرویز مشرف مستقبل میں اپنی صدارت کو برقرار رکھنے کے لئے خفیہ طور پر بے نظیر بھٹو سے رابطے میں رہے، جس سے پاکستان مسلم لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ میرے خیال میں اسی ڈگر پر شاہد خاقان عباسی چل رہے ہیں اور ہر معاملہ میں نواز شریف سے مشاورت کر رہے ہیں‘ جو نیب کے ریفرنسز میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور ان کا ان کیسز سے نکلنا محال ہے۔ فیصلے کی رو سے نواز شریف اب سیاسی طور پر بھی نااہل ہو چکے ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 5 کی تشریح کرے کیونکہ بادی النظر میں نواز لیگ ایک فرد واحد کے نام پر ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے۔ اسی آرٹیکل 5 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی صدارت سے بھی معزولی کا حکم نامہ جاری کرنا ہو گا۔ سننے میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنسز بھجوائے جا رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں