"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ کو سلامی پیش کی جائے!

حکومت کے حامی وکلاء کا موقف ہے کہ اقامہ کے حوالے سے نواز شریف کی نا اہلی آئین کے آرٹیکل 62 ون۔ایف سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان آئینی ماہرین سے، جو مستقبل میں بھی فوائد حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں، پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ایک منتخب وزیر اعظم کو زیب دیتا ہے کہ وہ آرٹیکل 65 کے تحت اپنے حلف کی صریح خلاف ورزی کرے ۔ کسی دوسرے ملک میں خفیہ طریقے سے اقامہ لینے کے بارے میں حقائق نہ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں ظاہر کرے اور نہ قومی اسمبلی کا امیدوار بنتے وقت ۔آئین کے آرٹیکل 62 ون۔ایف کا متن قارئین کی رہنمائی کے لئے پیش رہا ہوں۔ان وکلا سے گزارش ہے کہ متن بار بار پڑھیں۔پھر خود فیصلہ کریں کہ بیرون ملک اقامہ کے حوالے سے نواز شریف کا کنٹریکٹ خاص طور پر'' ایماندار‘‘ اور''امین ‘‘ کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں ۔ نواز شریف حقیقت چھپانے کے جرم میں نا اہل ہوگئے۔
ابھی تو آغاز ہے ،سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا ریکارڈنیب کے حوالے کر دیا ہے ۔ چند دنوں کے اندر نیب کی طرف سے ریفرنس دائر ہوں گے اور ان کی سماعت ہوگی ۔ شریف خاندان کے افراد عدالت میں اور عدالت کے باہر بیانات دیتے رہے۔اگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کو فیصلے کا اختیار دیا جائے تو عوام ان کے خلاف فیصلہ دیں گے ۔تب موروثی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گی۔ روشن پاکستان کی راہ متعین ہو جائے گی۔ شریف خاندان کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان ایک درست اور جرأت مندانہ فیصلہ صادر کرچکی ہے۔ عدالت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ میری اپیل ہے کہ ملک بھر کے وکلا ، سول سوسائٹی کے خود دار افراد ،جن کا بیرونی فنڈنگ پر انحصار نہیں ،ان کے سوا جو جان کیری بل سے مراعات یا فتہ ہیں، تمام صحافی برادری ، یونیورسٹی کے طلبا، سیاسی ورکرز اور قوم ایک دن اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے جمع ہوں اور قطاریں بنا کر سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو عوام کی طرف سے سلام پیش کیا جائے۔ اس عظیم سلامی میں آرمی کی ریٹائرڈ ایسوسی ایشن کے چالیس لاکھ سے زائد ارکان بھی شرکت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اخوت اور ایدھی مشن کے کارکن بھی آگے بڑھیں ۔ ان کی قیادت شہباز شریف کی اہلیہ محترمہ تہمینہ درانی کریں اور اسی عظیم سلامی میں بہادر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو بھی خراج تحسین پیش کیا جائے۔ ایسی جرأت کا انہوں نے مظاہرہ کیا ہے، جس کی کم از کم پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں جانتا ہوں کہ پنجاب کی حکومت اور نا اہل وزیر اعظم کے زیر سایہ وفاقی حکومت کا کوئی اہل کار اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ فی الحال فقط پنجاب کی کرپٹ مافیا کو عدالت کا سامنا کرنا ہے ، جو صرف شریف خاندان تک محدود نہیں،یہ مافیا دیگر سیاسی پارٹیوں، افسران اور سرمایہ داروں تک پھیلا ہوا ہے۔پنجاب اور وفاقی حکومت ہی کیوں ، اس کرپٹ مافیا کے سب سے زیادہ متاثرین سندھ کے عوام بھی ہیں، لہٰذا نہ فقط سندھ بلکہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے مافیا کا بھی عدالتوں کو احتساب کرنا چاہئے ۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے نیشنل پریس کلب میں جس رائے کا اظہار کیا ،آئین کی جس شق پر تنقید کی، وہ درست نہیں ۔ 1973 میں پاکستان کا جو متفقہ آئین بنایا گیا تھا، اس کے آرٹیکل 2-A میں لکھا ہے کہ حاکمِ مطلق اللہ تعالیٰ ہیں اور پاکستان کا کوئی قانون کتاب و سنت کے منافی نہیں ہوگا ۔ آٹھویں ترمیم میں اس آرٹیکل میں ، جو آئین کی روح ہے، 62 اور 63 کی دو شقوں کا اضافہ ظفر انصاری کمیشن کی سفارشات پر کیا گیا ۔ ان کا معروف مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے اسمبلیوں میں قانون سازی کا کام کرنا ہے، ان کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے تو وہ نا اہل ہوں گے اور اقتدار سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ ملک کے ممتاز دانشور امیر حمزہ کی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے موقف کو قوم کے سامنے پیش کرتا ہوں، رسول پاکﷺ کے کردار کی عوامی گواہی صداقت اور امانت ہے۔ جب رسول اللہ ؐ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اہل مکہ کو دعوت حق دی تو پوچھا، اے لوگو مجھے کردار کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے کیسا پایا؟ تو سب نے بیک زبان ہو کر کہا، ہم نے آپ ؐ کو صادق اور امین پایا۔یہی پاک نام پاکستان کے آئین میں 63-62 کی بنیاد ہے۔ انہیں آرٹیکلز نے قوم کی راہ متعین کی ہے ۔رسول پاکؐ کی عمر مبارک بھی 63 سال تھی۔ یوں 63-62 کا ایک تعلق حضور ؐ کی عمر مبارک کے ساتھ بھی ہے۔ جب آٹھویں آئینی ترمیم کے حوالے سے 1973 کے آئین میں 63-62 کو شامل کیا گیا تو ان کے سامنے شاید رسول پاک ؐ کی عمر مبارک کا یہ پہلو بھی ہوگا ۔ دفعہ63-62 میں اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت دکھائی دیتی ہے ۔ پاکستان ،جس کا قیام ستائیسویں رمضان المبارک کو ہوا، اس کے حکمرانوں کے کردار کو حضرت محمد ؐ کی پاک اور مبارک سیر ت کی روشنی میں آئین و قانون کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ اسی قانون نے نواز شریف کو، 28 جولائی جمعۃ المبارک کے روز نااہل کر دیا۔ نواز شریف کو اپنی اقتدار کے ایام کا جائزہ لینا چاہئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ معززججز اور جے آئی ٹی کے چھ ممبران تو محض ایک ذریعہ ہیں، اصل فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے حکمرانی دیتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔
نواز قبیلے کے ماہرین 63-62 کو آئین سے نکلوانا چاہتے ہیں ۔ صادق اور امین کی دفعات اسلامی دفعات ہیں۔ حضور پاک ؐ کی سیرت مبارک سے متعلق ہیں ۔ نواز لیگ نے اپنی اربوں ڈالر کی کرپشن بچانے کے لئے اور ملک کو انتشار، خلفشاراور خانہ جنگی کا شکار کرنے کے لئے متنازعہ بیانات دلوائے۔ کہلوایا گیا کہ وزیر اعظم کی برطرفی سے ملک حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔ نواز شریف کا چوکا تھا ۔ اب وہ چھکے مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ لوگ مولانا بھاشانی کے انداز سیاست کو اپناتے ہوئے آگ سے کھیل رہے ہیں ۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی قانونی اور جمہوری حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہیں۔ نواز قبیلے میں ایسے افراد شامل ہو چکے ہیں جو غالباً دو قومی نظریے اور پاکستان پر ایمان نہیں رکھتے۔
نواز لیگ میں شامل48 ارکان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ق) سے رہا ہے۔ یہ 48 ارکان ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں، نواز شریف عوامی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں ۔محاذ آرائی سے سیاسی نظام لپیٹ دینے کے لئے وہ باغیانہ روش اختیار کریں گے تاکہ کرپشن کے مقدمات مؤخر ہو جائیں اور کسی دوست ملک کے تعاون سے وہ اپنی دولت بچانے میں کامیاب ہو جائیں ۔اسی لئے عدلیہ اور افواج پاکستان کو وہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
آخر میں میں لندن میں مقیم دانشور، اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر ڈاکٹر شاہد قریشی کا ایک حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔انہوں نے دعو یٰ کیا ہے کہ 1978 سے نوازشریف کا انڈیا سے رابطہ ہے۔ ان کے مطابق نواز شریف اور ان کے ہمنوا انڈیا کا اثاثہ ہیں۔ ڈاکٹر شاہد قریشی لندن پوسٹ کے ایڈیٹر اور بی بی سی کے سینئر تجزیہ نگار ہیں ۔عالمی دہشت گردی اور عالمی امور پر ان کی گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر شاہد قریشی کا الجیریا ٹی وی، قازق ٹی وی اور ترک ٹی وی سے بھی رابطہ ہے۔ اسی طرح ملک کے ممتاز سیاسی، صحافتی، مذہبی سکالر آغا مرتضیٰ پویا بھی نواز شریف خاندان کے بھارتی اداروں سے 1978 سے چلے آرہے رابطوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو 1988 میں انہوں نے اس بارے میں اہم مواد بھی فراہم کر دیا تھا۔ ان سب معاملات کی باقاعدہ تحقیق ہونی چاہئے کہ ان میں کتنی سچائی ہے ۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں