"KDC" (space) message & send to 7575

ارکان پارلیمنٹ کو استشنا؟

حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات آئندہ کے انتخابی عمل کی روح کے مطابق نہیں ہیں اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کا ہی چربہ ہیں ، الیکشن قوانین کو یکجا کرنے سے دھاندلی کو روکا نہیں جا سکتا حکومت نے بد نیتی سے ایسی واضح حکمت عملی انتخابی اصلاحات کی آڑ میں مرتب کی ہے جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی قانونی خود مختاری پر قدغن لگا دی گئی ہے اور رولز بنانے کے لئے اسے حکومت کے تابع کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے کاغذات نامزدگی کے فارم کو بے اثر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور جن کاغذاتِ نامزدگی میں حقائق چھپانے کے جرم میں نواز شریف کو آرٹیکل (F)(1) 62 ، عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 99 F) ( ، عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 12 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 78 کے تحت تاحیات نا اہل قرار دیا تھا ایسی تمام شقوں کو کاغذات نامزدگی کے فارم سے خارج کر دیا گیا ہے، اسی طرح حکومت نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-a اور سینیٹ ایکٹ 75 کی دفعہ 25-A جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ ہر سال اپنے اثاثہ جات کی تفصیل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کرانے کے لئے قانونی طور پر پابند ہیں کو بھی حذف کر دیا گیا ہے اور عوام اپنے ارکان پارلیمنٹ سے باز پرس کرنے کے اختیارات سے محروم ہوگئے ہیں ۔ پاکستان اسلامی مملکت ہے اور ان کے ارکان کا صادق اور امین ہونا لازمی ہے۔ حکومت کی ملی بھگت سے جو انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، سینیٹ اس کو مسترد کر کے اس بل میں ان تمام شقوں کو دوبارہ شامل کرانے کی کوشش کرے جو حکومت نے اپنے مفاد میں حذف کر دی ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قوم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل (F)(1)62 کو ختم کرنے کے لئے اپوزیشن سے مل کر ترمیم کا بل لایا جا سکتا ہے، میرے نقطہ نظر سے یہ آئینی طور پر درست نہیں، پارلیمنٹ کے رکن کے لئے سچا اور ایماندار ہونے کی شرط ختم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، شنید ہے کہ اس ضمن میں ملک کی سات بڑی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہو گیا ہے، ان جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ، جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی ، پختون خواملی پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل ہیںاور کسی حد تک تحریک انصاف بھی اندرونِ خانہ اس میں شامل ہو سکتی ہے۔ اس اصولی فیصلے کے بعد بد دیانت اور بے ایمان جیل میں بیٹھ کر بھی پارلیمنٹ کی رکنیت کا اہل قرار پائے گا، آئین میں صداقت و امانت کی شرط آٹھویں ترمیم میں شامل کی گئی تھی جس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حلقے اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے آمریت کی یادگار قرار دے رہے ہیں، مزید یہ کہ تبدیلی پچھلی تاریخوں میں کیے جانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تاکہ جھوٹ، بے ایمانی اور بد دیانتی، حقائق چھپانے پر نا اہل ہونے والوں کی نا اہلیت کالعدم قرار پائے، واضح اشارہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آئین کے جس آرٹیکل کے تحت نواز شریف کو نا اہل قرار دے چکی ہے وہ آرٹیکل پچھلی تاریخ سے ختم کر کے ان کو بحال کر دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 63-62 میں یہ شق شامل کی جا رہی ہے کہ صدر کے علاوہ اب وزیر اعظم، اس کی کابینہ اور پورے ارکان پارلیمنٹ کو بھی مکمل عدالتی استشناء حاصل ہو گا ، جس کے بعد کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف عدالتوں میں کسی کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی، اگر ارکان پارلیمنٹ سے کوئی جرم سر زد ہوا تو اس کا کسی بھی عدالت سے احتساب نہ ہو سکے ۔ اگر یہ ترمیم حکومت اپنے اتحادیوں کے تعاون سے کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کرپشن، بے ایمانی، بد دیانتی کو آئینی تحفظ مل جائے گا اور عدالتی استشناء کے بعد تمام سیاست دانوں کے خلاف تمام کیسز خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
نواز شریف جو جی ٹی روڈ کے ذریعے تین چار دن میں لاہور پہنچے تھے، یہ احتجاج کون سی قوتوں کے خلاف ہے۔بہرکیف آئین کی مذکورہ شقوں کے اخراج سے پارلیمنٹ میں بیٹھے قومی مجرم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوگا۔ خائن و کذاب قانون سے بالاتر ہو جائیں گے! نواز شریف کی اس منفی سوچ کو لیکر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی آگے بڑھ رہے ہیں، ایسی سوچ کی بنیاد پر کئے جانے والے فیصلہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدالت کے ذریعے ثابت شدہ جھوٹے اور بے ایمان جو امانت میں خیانت کرتے ہوئے گرفتار ہوجائیں، ان کے لئے نہ صرف پارلیمنٹ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے بلکہ ایسے افراد کے لئے وزیر اعظم، وزراء، مشیر ، گورنر سمیت کسی بھی اعلیٰ عہدے پر پہنچنا مسئلہ نہ ہوگا اور نواز شریف کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری اور ان کے جرائم میں ملوث ساتھی بھی عدالتی استشناء حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جن جن سیاسی پارٹیوں کے ارکان کرپٹ ہیں وہ بھی اس سے استعفادہ کر لیں گے اور الطاف حسین بھی اگلی پرواز سے کراچی پہنچ جائیں گے اور ان کے تمام ساتھی جو قومی مجرم ہیں وہ بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے۔
شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رہنمائی کے لئے عرض ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63-62 میں اٹھارویں ترامیم کے ذریعے ردو بدل کی کوشش کی گئی تھی لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور دیگر مذہبی پریشر گروپس کی شدید مخالفت کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ انہیں اسی طرح آئین میں شامل رکھا جائے گا، اسی دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلہ دیا تھا جس میں موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثاربھی بینچ میں شامل تھے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ، جس میں آئین میں شامل اسلامی آرٹیکلز شامل ہیں، کو پارلیمنٹ تبدیل نہیں کر سکتی۔ اسی طرح سپریم کورٹ آف انڈیا بھی اسی طرح کا فیصلہ دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کرنے کی مجاز نہیں ہے، اگر وہ ایسا کرتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخابات کرائے جائیں گے اور نئی قانون ساز اسمبلی کو بھی اسی طرح کے اختیارات حاصل ہو ں گے۔ اب نواز شریف یہ مہم چلا رہے ہیں کہ ان اسلامی شقوں کو دستو ر سے نکال دیا جائے، اب ملک کی تمام مذہبی ، دینی جماعتوں اور اسلامی سوچ کی حامل سیاسی پارٹیوں کو اس مہم جوئی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ہوگی، کوئی بعید نہیں کہ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) دیگر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے اسلامی آئین کو سیکولر بنانے کے لئے کوئی کارروائی نہ کر دے، نواز شریف اور ان کے ہم نوائوں کو احساس ہی نہیں کہ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے تسلیم کر لیا ہے کہ تمام پابندیوں ، اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بندش کے باوجود اسلام آباد میںایک جنازے میں لاکھوں لوگ پہنچ چکے تھے، ان کے اعترافی بیان کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کو احساس ہونا چاہئے کہ اگر آئین کے آرٹیکل 63-62 کی روح کو چھیڑا تو پاکستان کی خاموش اکثریت پارلیمنٹ کا گھیراؤ اسی انداز میں کرے گی جیسے 1982-83 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک جماعت نے اسلام آباد کو خاموشی سے گھیر لیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں