"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات !!

وفاقی حکومت کی آئینی مدت آئندہ سال 31 مئی 2018 کو مکمل ہو جائے گی۔ جس کے بعد نئی انتخابی اصلاحات کی روشنی میں 90 دن کے اندر ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے عام انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔ الزام ہے کہ مئی 2013 کے انتخابات میں پچاس نشستوں پر دھاندلی کروائی گئی ، اس کے ثبوت کے لئے نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن عنقریب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس ایک ایسے شخص سے کروانے کا ارادہ رکھتی ہے جو نگران سیٹ اپ میں اہم وفاقی وزیر تھے، ان کے پاس شواہد موجود ہیں ۔ مئی 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی خصوصی ہدایات پر ریٹرننگ آفیسرز کا تقرر کیا گیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خصوصی خطاب کے بعدانتخابات متنازعہ حیثیت اختیار کر گئے۔
عوام جانتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر علاقائی جماعتوں نے دھاندلی کی شکایات کی تھیں اورمتفقہ طور پر طے کیا تھا کہ انتخابی طریقہ کار میں ایسی اصلاحات کی جائیں گی جو انتخابی نتائج میں عوام کی حقیقی مرضی کے اظہار کو یقینی بنا سکیں۔ اس مقصد کے لئے 12 اگست 2014 کو انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی، تاہم ملک میں جاری سیاسی خلفشار کے باعث اس کام میں غیر ضروری تاخیر ہوئی اور اس حوالے سے مسودہ قانون حال ہی میں قومی اسمبلی میں بحث کے لئے پیش کیا جا سکا ،جس پر تحریک انصاف ، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ ، جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس میں تجاویز کی صور ت میں ترامیم لانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ حکومت نے سیاسی خلفشار اور پانامہ کیس میں،صف اول کی سیاسی قیادتوں کی مصروفیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق انتخابی اصلاحات کر دیں۔ موجودہ انتخابی اصلاحات میں حکومت نے دانستہ طور پر بائیو میٹرک مشینوںکی فراہمی کو ناممکن قرار دے دیا حالانکہ یہ ملک بھر میں موجود اور مناسب قیمت پر دستیاب ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے مناسب قانون سازی اس لئے نہیںکی گئی کہ حکمران جماعت کو خطرہ لاحق ہے کہ‘ ان کے ووٹ ایک خاص سیاسی جماعت کو مل جائیں گے ۔پاکستان کے جو شہری پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور عارضی طور پر روز گار وغیرہ کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں، انہیں ووٹ کا حق دینا یقینا ایک اچھا فیصلہ ہوگا۔ انتخابی اصلاحات کے مسودے کو عمیق نظری سے دیکھا جائے تو اس میں آئندہ انتخابات میں دھاندلی کو روکنے کی کوئی جامع قانون سازی نہیں کی گئی ،جس سے دھاندلی کے دروازے کھلے رہیں گے، راقم الحروف اپنے تحفظات جناب شاہد خاقان عباسی کو بھی بھیج چکا ہے، جو ہماری طرف سے آخری کاوش ہے۔ اس سے قبل انتخابی اصلاحات پر میرے درجنوں کالم شائع ہوئے ہیں ۔ میں نے الیکٹرانک میڈیا کے بھی ہر فورم پر انتخابی اصلاحات کے موجودہ مسودے پر اپنے شدید تحفظات کا ظہار کیا اور چند ہفتے پیشتر نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن نے بھی سفارتی نمائندوں کو بریف کرتے ہوئے حکومت کی مرتب کردہ انتخابی اصلاحات میں اہم ترامیم کی سفارشات پیش کیں۔ راقم نے جناب اسحاق ڈار کو انتخابی اصلاحات کے خدوخال پر خصوصی خطاب کی بھی دعوت دی، جسے وہ مسلسل نظر انداز کرتے رہے، بعض این جی اوز نے بھی انتخابی اصلاحات پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ‘ جو بے معنی ہو کر رہ گئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن نے کراچی میں انتخابی اصلاحات پر قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں راقم الحروف نے تجویز پیش کی کہ پاک فوج کو گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنانے کی تجویز منظور ہوتی ہے تو آئندہ افواج پاکستان کو اقتدار میں حصہ دینے کے لئے آئین میں ترمیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، اسی طرح نگران وزیر اعظم کا تقرر وزیر اعظم اور لیڈر آف دی آپوزیشن کی خفیہ مشاورت کی بجائے پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کر کے کیا جائے بلکہ نگران وزیر اعظم کے تقرر کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے رائے شماری کرائی جائے، اس طرح فعال، مضبوط اور غیر جانبدار نگران وزیر اعظم کا تقرر کیا جا سکے گا۔
انتخابی اصلاحات کو قومی امنگوں کے مطابق اس لئے نہیں مرتب کیا گیا کہ حقیقی انتخابی اصلاحات سے شریف خاندان کا اقتدارہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل (F)(1)62 کے تحت تاحیات نا اہل قرار دے دیا ہے اور نواز خاندان کا اب سیاسی طور پر کوئی کردار نظر نہیں آ رہا، یہ اسباب بہت ٹھوس ہیں، میاں نواز شریف کوئی عوامی اور سرکاری عہدہ رکھنے کے لئے ہمیشہ کے لئے نا اہل ہو چکے ہیں اور پارٹی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے چلی گئی ہے۔ نواز شریف اگر حکومت اور سیاسی جماعت کی سند اپنی اولاد کو منتقل نہ کر سکے تو وہ اپنے بھائیوں کو بھی یہ سند نہیں دیں گے، چنانچہ شریف خاندان کا سیاسی کردار تقریباً ختم ہو گیا ہے ، اسی لئے نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک کی ریلی کے ایک دن کے وقفے کے بعد مزار اقبال پر کھڑے ہو کر سانحہ مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے خصوصی پیغام اپنے مخصوص دوستوں کو پہنچا دیا ، حالانکہ نواز شریف کے ہی نامزد کئے گئے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم منتخب کرایا گیا اوران کے ہی نامزد کردہ وزراء کیبنٹ میں موجود ہیں، اس کے باوجود نواز شریف ریاست کے خلاف عوام کو اکسانے کے در پے ہیں۔ دراصل نواز شریف کا جھکاؤ بھارت کی طرف شروع ہی سے رہا ہے، گزشتہ سال بھارت اور بنگلہ دیش سے خصوصی طور پربلائے گئے دانشوروں اور صحافیوں سے لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ '' میرا اور آپ کا رب ایک ہے‘‘ ۔ اس بات کو لوگوں نے دو قومی نظریے کے خلاف قرار دیا تھا ۔ اسی طرح کراچی میں دیوالی کی تقریب میں بھی وہ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں ۔
نواز شریف کا 1971 کی جانب اشارہ اپنے اندر بہت سے معنی لئے ہوئے ہے، نواز شریف کی اگر اسلام آباد سے لاہور واپسی تک کی تمام تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے اندر کوئی خفیہ منصوبہ جڑیں پکڑ رہا ہے ،ان کا موقف یہی نظر آرہا ہے کہ اگر اقتداران کے پاس یا ان کی بیٹی کے پاس نہ رہا تو ان کا خاندان ایسے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرے گا ۔اسی لئے وہ سارے نظام کو تلپٹ کرنے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے پرویز رشید کو اکھاڑے میں لا کھڑا کیا۔ میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے وہ تاثر دے رہے ہیں کہ پانامہ کیس دراصل ادارے لائے ہیں تاکہ نواز شریف سے اقتدار چھین لیا جائے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اسی لئے نواز شریف نے ایک خصوصی ایجنڈے کے طورپر لاہور میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کو خاص طور پر براجمان کرایا کہ وقت آنے پر ان کو شیخ مجیب الرحمن کا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو جاتی عمرہ کا طواف نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آئینی اور قانونی طور پر نواز شریف کا کردار سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں