"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری: ریکارڈ کا موازنہ کیا جائے!

ملک میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے جو ابتدائی نتائج شماریات ڈویژن کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش کیے گئے ان کے مطابق پاکستانی قوم آج تقریباً پونے اکیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ 1998ء سے 2017ء تک کی آبادی میں اوسطاً 2.4 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ پنجاب اور سندھ میں آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح میں کمی دکھائی دی ہے جبکہ خیبر پختون خوا، فاٹا اور بلوچستان میں یہ شرح بڑھی ہے۔ کل آبادی میں مقامی لوگوں کے ساتھ رہنے والے افغان مہاجرین اور دیگر غیر ملکی بھی شامل ہیں، جن کے ساتھ آبادی میں دو عشروں میں مجموعی اضافہ 57 فیصد بنتا ہے۔ ملک میں مردوں اور عورتوں کی آبادی کا تناسب تقریباً برابر ہے۔ مردوں کی تعداد عورتوں سے صرف 51 لاکھ زیادہ ہے۔
مردم شماری کے نتائج پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات میں وزن ہے لہٰذا اگر حکومت اور فوج کے ریکارڈ کا موازنہ کرنے کا اہتمام کیا جائے تو میرے خیال میں ان حلقوں کے یہ تحفظات دور ہو سکتے ہیں اور مردم شماری کے نتائج ان کے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ اس طرح اس سر ابھارنے والے اس نئے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے اور مردم شماری کے اعدادوشمار کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی کا آغاز ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ نتائج پر اعتراض کرنے والوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ مردم شماری درست طریقے سے نہیں ہوئی، محض خانہ پُری کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات پر عمل درآمد کرایا گیا ہے۔ اصل آبادی کچھ اور ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ملک کے کچھ حصوں کی آبادی جان بوجھ کر زیادہ اور کچھ کی بالقصد کم ظاہر کی گئی ہے تاکہ وسائل کی تقسیم کو ملک کے زیادہ آبادی والے حصے کے حق میں کیا جا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شماریات ڈویژن کے عملے نے سندھ حکومت کے ایماء پر شہری اور دیہی آبادی میں توازن پیدا کرکے شہری علاقوں میں انتخابی حلقہ بندیوں کو بے اثر کرنے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کی‘ لہٰذا فوج اور حکومت کے ریکارڈ کا موازنہ کرکے حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں سندھ حکومت کی خصوصی حکمت عملی کے تحت کراچی کی آبادی کے اعداد و شمار میں ٹمپرنگ کی گئی، اسی طرح کی ٹمپرنگ 1972ء کی مردم شماری میں بھی کی گئی تھی‘ جس کے نتیجے میں 1974ء میں کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں ہیرا پھیری ہوئی تھی۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ اب بھی وفاقی شماریات ڈویژن کا عملہ عملی طور پر سندھ حکومت کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا اور کم آبادی ظاہر کرکے کراچی کے وسائل اور انتخابی نشستوں پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ مردم شماری نقائص اور اغلاط کا مجموعہ ہے، سندھ کے غلط اعداد و شمار جاری کئے گئے، جن کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ 
اسی طرح پنجاب میں بھی کچھ حلقوں کی جانب سے یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ اعداد و شمار زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔ شماریات ڈویژن نومبر سے پیشتر حتمی گزٹ نوٹی فکیشن جاری کر دیتا ہے تو پھر آئینی و قانونی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے اور 2018ء کے انتخابات نئی حلقہ بندیوںکے تحت ہی ہوں گے۔ مردم شماری کے نتائج سندھ کی علاقائی اور مقامی سیاسی جماعتیں قبول کر لیتی ہیں تو پھر کراچی اور حیدر آباد کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔
نواز شریف صاحب کو اپنی سیاسی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو رہا ہے۔ امکان ہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے پاناما کیس میں نواز خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنسز 10 ستمبر تک احتساب عدالت میں دائر کر دیئے جائیں گے اور نواز شریف کے خاندان کے ملزم ارکان کو قبل از گرفتاری ضمانتیں کرانا پڑیں گی۔ اس پس منظر میں جو مخالف سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ سیاست میں نواز شریف کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے‘ اور وہ اسے اپنا مقدر سمجھ کر خاموشی سے بیٹھ جائیں گے‘ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں، نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے وکلاء کی تحریک چلائی تھی اور صدر پرویز مشرف اور ان کی ایجنسیوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی تھی۔ پرویز مشرف کے دست راست 48 ارکانِ قومی اسمبلی کے لندن میں نواز شریف کے ساتھ خفیہ رابطے تھے اور ان کو انہی خدمات کے عوض پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل کیا گیا تھا۔ ان ارکان کا منتشر ہونا خارج از امکان ہے، لہٰذا نواز شریف سیاست میں واپسی اور مزید قانونی گرفت سے بچنے کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں، لاہور میں اپنے حامی وکلاء کنونشن میں انہوں نے اس کا عندیہ دے دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پارلیمنٹ پر ان کا مکمل کنٹرول ہے اور ان کی جماعت وفاق اور دو صوبوں میں حکومت کر رہی ہے۔ ان کی پشت پر آزاد کشمیر اور گلگت‘ بلتستان کی حکومتیں بھی کھڑی ہیں، لہٰذا نواز شریف اپنی سیاسی جماعت اور پارلیمنٹ کو اپنی سیاسی بقاء اور دفاع کے لیے استعمال کریں گے۔ نواز شریف کا اسلام آباد سے لاہور کا سفر عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اب نواز شریف کا زیادہ انحصار پارلیمنٹ پر ہو گا اور وہ پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کا ایسا بل لانے کا سوچ رہے ہیں، جو ان کی دانست میں ان قوتوں کو کمزور کرے گا، جنہوں نے بقول
نواز شریف انہیں اقتدار سے نکالا۔ نواز شریف کی یہ کوشش اداروں میں تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نواز شریف کے اس عزم کی راہ میں رکاوٹیں ضرور حائل کریں گی لیکن یہ دونوں سیاسی جماعتیں اس تصادم کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت اور مولانا فضل الرحمن، اور اسفند یار ولی خان دوسرے حوالوں سے ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ نواز شریف اپنی حکومت کے ایماء پر کھلے عام میدان میں اتریں گے اور ایسی صورت حال میں پاکستان اندرونی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ نواز شریف کے خاندانی دوست ممالک ان کی اس طرح پشت پناہی کریں گے جیسا کہ انہوں نے صدر پرویز مشرف کو معزول کرنے اور ان کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے وکلاء تحریک میں خفیہ طور پر کی تھی۔ اس وقت نواز شریف کی سوچ سے ملک کا سیاسی نظام خطرے میں ہے اور نواز شریف اسی روش پر چلتے نظر آئے تو حادثہ ان کی اپنی پارٹی میں بھی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ زیادہ محتاط ہو کر چلیں اور کوئی ایسا اقدام یا کارروائی نہ کریں‘ جس سے حالات کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔وہ اگر آئینی حدود میں رہیں اور دوسری جانب مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے کچھ جماعتوں اور حلقوں کے تحفظات دور کر دئیے جائیں تو حکومت کے لئے حالات کو قابو میں رکھنا مشکل نہیں رہے گا۔ اس لئے مردم شماری کے بارے میں ان سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے حکومت کو فوری طور پر متحرک ہونا ہو گا۔

مردم شماری کے نتائج پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات میں وزن ہے لہٰذا اگر حکومت اور فوج کے ریکارڈ کا موازنہ کرنے کا اہتمام کیا جائے تو میرے خیال میں ان حلقوں کے یہ تحفظات دور ہو سکتے ہیں اور مردم شماری کے نتائج ان کے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ اس طرح اس سر ابھارنے والے اس نئے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے اور مردم شماری کے اعدادوشمار کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی کا آغاز ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں