"KDC" (space) message & send to 7575

’’حلفیہ اقرار نامہ‘‘ ختم کرنے کی کوشش

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 پر پورا نہ اترنے پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا‘ جس کے بعد اس آرٹیکل میں ترمیم کرنے کی کوشش کا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابی اصلاحات بل میں کاغذاتِ نامزدگی فارم میں ''حلفیہ اقرار نامہ‘‘ کا لفظ ختم کر کے صرف اقرار نامہ لکھنے کے عمل سے ملک کو سیکولر سٹیٹ بنانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ گویا انتخابی اصلاحات بل میں کاغذاتِ نامزدگی فارم کو سادہ بنا کر آئین کے آرٹیکل 62-63 کو حذف کرنے کی تیاریاں ہیں‘ کیونکہ آئین کے آرٹیکل 62-63 سے خوف زدہ رہنے کی ذہنیت کے حامل افراد اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ آرٹیکل 62-63 آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شمار ہوتے ہیں‘ جن میں ترمیم آئین کی خلاف ورزی ہے اور سپریم کورٹ ایسی ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی میں حلفیہ اقرار نامہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی امیدوار جمع کرائے گئے کاغذات یا بیان سے منحرف ہو سکتا ہے۔ حلف کا لفظ حذف کرنا لا دینی ذہنیت رکھنے والے افراد کی بدنیتی ظاہر کر رہا ہے۔ ایسی قوتیں ہی آئین کے آرٹیکل 62-63 کا خاتمہ چاہتی ہیں تاکہ ان کا راستہ صاف ہو جائے۔ ایسی ایک کوشش اکتوبر 1978ء میں بھی کی گئی تھی۔ یہ کوشش الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس وقت کے ایک سیکرٹری نے کی تھی۔ انتخابی فہرست کے ووٹر کے لئے جو فارم وضع کئے گئے تھے‘ ان میں سے لفظ حلف نکال دیا تھا‘ اور اس کی جگہ اقرار کا لفظ شامل کر دیا گیا تھا، جس پر ملک بھر کی مذہبی جماعتوں نے مارشل لاء دور میں احتجاج کی کال دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے گھیراؤ کا اعلامیہ جاری کر دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس مشتاق حسین کی مشاورت سے اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں طے ہے کہ اس کا حکمران ایماندار اور دیانتدار ہو گا اور پاکستان کا آئین اسلامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہو گا، اس میں پارلیمنٹ کو ترمیم کا اختیار نہیں ہے۔ اس میں ترمیم کی کوشش توہینِ عدالت بل 2012ء کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گی۔ حالیہ انتخابی اصلاحات بل میں کاغذاتِ نامزدگی میں حلفیہ اقرار نامے کے بجائے صرف اقرار نامہ لکھنے کا مقصد بھی آئین کے آرٹیکل 62-63 کو ختم کرنے کی کوشش ہی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
میرے علم کے مطابق حکومت نے یورپی ممالک اور دیگر مغربی ممالک کی خوشنودی کے لئے انتخابی کاغذاتِ نامزدگی میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کے رولز 3 میں ترامیم کرکے ڈیکلیریشن کو بر قرار رکھا اور حلف کے الفاظ کے حذف کر دیئے ہیں۔ اسی طرح نظریہ پاکستان اور قائد اعظم سے وابستگی کے پیراگراف کو بھی حذف کر دیا گیا ہے‘ اور پارلیمنٹ کے ارکان کے انتخابات کو سیکولر ذہن کے مطابق مرتب کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اسلام اور پاکستان سے وفاداری کی شرائط کو بھی کاغذات نامزدگی کے فارم سے نکلوا دیا گیا ہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن کاغذات نامزدگی فارم میں اس تبدیلی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاری کر رہی ہے‘ اور جن ارکان نے انتخابی اصلاحات میں کاغذاتِ نامزدگی کے فارم میں ایسی اہم شقوں کو حذف کرنے کی دستاویزات پر دستخط کئے ہیں‘ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل (G)(1)63 کے تحت کارروائی کرنے کی استدعا کی جائے گی۔
قومی اسمبلی کی جانب سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحات بل 2017ء میں کئی خامیاں ہیں‘ جنہیں سینیٹ میں منظوری کے وقت درست کیا جا سکتا ہے۔ انتخابی بل کے تحت الیکشن کمیشن کا حکومت پر انحصار بڑھا دیا گیا ہے‘ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وزیر اعظم آفس کے تابع کر دیا گیا ہے۔ حکومت اس قانون کے تحت کسی بھی معاملے کو پارلیمنٹ کی طرف بھیجے گی‘ جس کے لئے کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیا گیا۔ یہ معاملہ اس قانون کی شق 4 ذیلی دفعہ 3 سے متصادم ہے‘ جس میں الیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ کے لئے جو طرز عمل ضروری سمجھے، اختیار کرے اور جو اقدامات ضروری سمجھے‘ وہ کرے۔ یہ ترامیم کسی حد تک خوش آئند ہیں‘ لیکن یہ شق عوامی نمائندگی ایکٹ 76 میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس شق کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس طرح عوامی نمائندگی ایکٹ 76 اور دیگر الیکشن لاز کو یکجا کر کے ایک طرح سے کنفیوژن پیدا کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کو انتخابی ڈیوٹی کے دوران کرپٹ پریکٹس یا کسی کوتاہی کے مرتکب سرکاری اہل کار یا کسی بھی دوسرے شخص کو سزا دینے کا کوئی طریقے کار طے نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن میں ایسے اہل کاروں کو عہدے اور فرائض سے ہٹانے یا معطل کرنے کا اختیار تو دیا گیا ہے‘ لیکن الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ایسے اہل کاروں کو باضابطہ طور پر سزا دے سکے۔ قومی اسمبلی سے منظور بل کے مطابق الیکشن کمیشن کو یہ اختیار تقویض کیا گیا ہے کہ وہ انتخابی عملے کے خلاف انضباطی کارروائی کر سکتا ہے۔ 
نئے قانون کے تحت ریٹرننگ آفیسرز، جو کہ عمومی طور پر اب بیوروکریسی سے لئے جائیں گے‘ اور انتخابات کے دوران اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں، پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل اختیار نہیں دیا گیا۔ یہ ریٹرننگ آفیسرز امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کرتے ہیں، ان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ امیدوار الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں، انتخابی عمل کی نگرانی اور الیکشن میں ڈالے ووٹوں سے نتائج مرتب کرتے ہیں۔ نیا قانون الیکشن کمیشن کو منتخب رکن کی نااہلیت کے متضاد اختیارات دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے ضابطہ اخلاق کی دوبارہ خلاف ورزی کے مرتکب رکن یا ایسے رکن کو‘ جو خواتین کو ووٹ کے عمل سے باہر رکھنے کے کسی معاہدے کا حصہ ہو‘ نااہل کرنے کا تو اختیار دیتا ہے‘ تاہم کسی ایسے رکن کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں دیتا‘ جس نے انتخابی اخراجات یا اثاثوں کا جعلی گوشوارہ جمع کرایا ہو۔ 
حلقہ این اے 120 میں انتخابی مہم کے دوران مریم صفدر کا لاہور کے کیتھولک چرچ میں خطاب عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 79 کی صریحاً خلاف ورزی ہے‘ جس کے مطابق مذہبی جگہوں پر الیکشن مہم کی ممانعت ہے اور خلاف ورزی پر جرمانہ اور قید کی سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ بہرحال مریم صفدر کا خطاب چرچ انتظامیہ کو مہنگا پڑ گیا۔ چرچ انتظامیہ کو دنیا بھر میں موجود پاکستانی مسیحیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے معافی کا مطالبہ کیا۔ مسیحی برادری کے دبائو کے بعد چرچ انتظامیہ نے معافی نامہ جاری کر دیا۔ معافی نامہ کے مطابق آرچ ڈیواس آف لاہور نے مریم صفدر کے دورے اور خطاب کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یکم ستمبر کو لاہور میں مریم صفدر وزرا کے ہمراہ چرچ آئیں۔ دراصل دو روز پہلے منسٹر کامران مائیکل، منسٹر خلیل طاہر سندھو اور ایم پی اے شکیل اعوان نے بشپ صاحب سے درخواست کی تھی کہ مریم صفدر اپنی والدہ کلثوم نواز کی صحت یابی کی دعا کے لئے چرچ آنا چاہتی ہیں۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے چرچ انتظامیہ نے اجازت دے دی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان از خود نوٹس لیتے ہوئے چرچ انتظامیہ کی وضاحت کے بعد مریم صفدر کے خلاف مذہبی مقام کو سیاسی آماجگاہ بنانے پر ایکشن لینے کا آئینی و قانونی طور پر مجاز ہے۔
نااہل نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل (i)62 ایف کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ ایسے شخص کو اپنے بینک اکائونٹ کھولنے میں بھی دشواری پیش آ سکتی ہے‘ جو شخص صادق اور امین ہی نہیں رہا، وہ آئین اور قانون کی نظر میں دوسرے درجے کا شہری بھی نہیں رہا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں