"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری‘ الیکشن کمیشن اور ضمنی انتخاب

مردم شماری 2017ء سندھ میں ہدفِ تنقید بنی ہوئی ہے۔ سندھ کی تقریباً سبھی جماعتوں نے مردم شماری کے ابتدائی اعدادوشمار کو مسترد کر دیا ہے۔ بقول ان کے سندھ‘ بالخصوص کراچی کی آبادی کم دکھائی گئی ہے۔ نتائج کو ہدف تنقید بنانے والوں کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ مردم شماری میں وفاقی حکومت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر رہا ، صوبائی حکومت اور اس کے محکمے مردم شماری میں پیش پیش رہے۔ فوج نے محض سلامتی اور سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیے۔ مردم شماری کے تمام کاغذات صوبائی حکومتوں کی مہیا کی گئی افرادی قوت نے مرتب کئے‘ تاہم حکومت کی پراسرار حکمت عملی ضرور مشاہدے میں آئی۔ مردم شماری کے عملے نے جو فارم پُر کرائے وہ پنسل سے غیر حتمی فارموں پر مرتب کئے، خود میرے ساتھ ایسا ہوا ، میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ محکمے نے جو فارم ہمیں دئیے ہیں، تربیت نہ ہونے کی وجہ سے غلط اندراج کرنے کے خدشات تھے۔ لہٰذا ہمیں پنسل سے کوائف پُر کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ پنسل سے جو کوائف درج کئے گئے بعد میں فائنل کرتے ہوئے اپنی پالیسی کے تحت ان کا اندراج کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود مردم شماری کے نتائج کے پیچھے کوئی سیاسی حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰذا رات دن کی محنت کے بعد مرتب کردہ رپورٹوں اور صوبائی اداروں کے ملازمین پر شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی حکومت کا سندھ اور خیبرپختون خوامیں کوئی عمل دخل نہیں کہ وہاں افرادی قوت، وفاق کے زیراثرنہ تھی۔ کراچی میں مردم شماری کرنے والے سندھ کی جماعتوں کے بھی ممبر ہو سکتے ہیں اور دوسرے افراد بھی ۔ ان میں کچھ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہو گا اور کچھ ایم،کیو،ایم کی کسی پارٹی سے ۔پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، فنکشنل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے حامی بھی ان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ بہر کیف وفاقی حکومت سازش کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ سینیٹ کا فیصلہ قابل تعریف ہے جس نے ایک فیصد ڈیٹا کوازسرنو چیک کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ سیاسی اِداروں، شخصیات اور عوام کی تسلی کے لئے ایک فیصد تو کیا دو یا تین فیصد ڈیٹاچیک کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔اس سے ابہام دور کرنے میں مدد ملے گی۔
محکمہ شماریات ڈویژن نے مردم شماری کے لئے جو فارم مرتب کئے تھے وہ 1959ء کے تیار کردہ فارموں سے مختلف تھے جس کی وجہ سے شک و شبہ کیا جارہا ہے۔ صدر ایوب خان کے قانون1959کے تحت مردم شماری کو خفیہ رکھنا لازمی ہے اور اسی قانون کے تحت کوئی صوبہ کسی عدالت میںاسے چیلنج نہیں کرسکتا۔تاہم نادرا کے ریکارڈ کے مطابق کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی 48فیصد آبادی 18سال سے زائد عمر کی ہے۔ کراچی کے عوام شہر کی آبادی کم دکھانے پر تڑپ کے رہ گئے مگر سندھ حکومت ،جس کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اس سارے عمل کی نگرانی کر رہے تھے ، اس عمل میں مبینہ طور پر ملوث نظر آتی ہے ۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے متحدہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کراچی کے عوام کو دکھانے کیلئے سندھ کی کل آبادی کو تسلیم نہیں کر رہے تاکہ کوئی سندھ حکومت پر شک نہ کر سکے۔اگر صحیح مردم شماری کا نتیجہ آتا ہے تو سندھ میں اس وقت 60فیصد غیر سندھیوں یعنی اردو، پنجابی، پشتون اور بلوچوں کی آبادی ہے۔ اس طرح سندھی بولنے والے اب اقلیت میں شمار ہوتے اور اس کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے وفاق کے بعد اب سندھ بھی نکل جائے گا ۔سندھ حکومت نے آصف علی زرداری کی حکمت عملی کے تحت اور متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے ہم نوا گروپس کو نتیجہ دکھانے کے لئے صحیح مردم شماری نہیں ہونے دی۔ کراچی اور حیدرآباد کے عوام اسی بنیاد پر کراچی کی مردم شماری کو مسترد کر چکے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حالیہ انٹرویو میں اشارۃً کہا ہے کہ حکمران جماعت محاذ آرائی کو ایک طرف رکھ کر ایک وسیع اتفاق رائے پیدا کرے تاکہ ایک متحدہ فرنٹ سامنے آسکے، پانی سر سے گزرا تو نہیں لیکن پانی سر کے بہت قریب ہے۔ ان کا اشارہ یہی ہے کہ نوازلیگ اب دریا برد ہونیوالی ہے۔ اسی لئے نوازلیگ نے حلقہ 120کی انتخابی مہم کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے ۔ مریم نواز دن رات حلقے میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ نواز شریف کی لندن روانگی اور قومی احتساب بیورو کی جانب سے نواز خاندان کے خلاف ریفرنس احتساب کورٹ میں بھجوانے کے بعد نوازلیگ کے صف اوّل کے رہنما اب انتخابی مہم چلاتے نظر نہیں آتے۔ کلثوم نواز اگر کم مارجن سے کامیاب ہوتی ہیں تو اس کے نتائج مسلم لیگ کے لیے بہت خوفناک ہوں گے، بہت سے اسمبلی ارکان نوازلیگ میں ہی جمہوری گروپ بنا کر نوازشریف سے علیحدگی اختیار کریں گے اور چوہدری نثار علی خان کی پیش گوئی درست ثابت ہو جائے گی ۔
ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ پاکستان سیاسی استحکام حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نوازشریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد جمہوریت کا تسلسل جاری ہے۔ پارلیمنٹ موجودہ ہے اور شاہد خاقان عباسی نئے وزیراعظم کے طور پر حکومت چلا رہے ہیں اور تمام اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد جمہوریت کو کسی قسم کا کوئی خطر نہیں ۔ جب کہ مریم نوازگروپ کا خیال اس کے برعکس ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پراسرارہاتھ نے احتساب کے نام پر سیاستدانوں کے خلاف جو عمل شروع ہوا ہے وہ صرف نوازشریف، ان کے اہلِ خانہ اور قریبی ساتھیوں تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور ملک کی قد آور سیاسی قیادت بھی زد میں آئے گی ۔ مریم نواز کا حلقہ احتساب کے عمل کو ماضی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اسے نئے حربے سے تعبیر کر رہا ہے۔
حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کو نواز لیگ نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ سرکاری مشینری کا استعمال اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانبداری اور غیر جانبداری 17ستمبر کو واضح ہو جائے گی۔ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے اور بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو عام ووٹر سے لے کر قومی اور بین الاقوامی ادارے تک اس انتخاب کو شفاف، غیر جانبدار اور دھاندلی سے مبرا نہیں کہہ سکیں گے۔ نوازلیگ کے وزراء، ارکان اسمبلی سرعام الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے رسمی کارروائی پوری کرنے کیلئے تمام پارٹیوں کو نوٹس جاری کئے، مگر حکمران جماعت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حاکمیت کو یکسر نظر انداز کر دیا ۔ صوبائی وزراء سرکاری آفس میں مختلف برادری سربراہوں کو بلا کر حلف لے رہے ہیں ۔ مریم نواز کی طرف سے ملازمتوں کے خطوط تقسیم کئے جارہے ہیں۔ نام نہاد ملازمتوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ حلقہ 120میں مبینہ طور پر پندرہ ہزار ایسے ووٹرز ہیں جن کا تعلق دوسرے حلقوں سے ہے،جودھاندلی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔اس کے مذہنی جماعتیں نواز لیگ کے ووٹ تقسیم کرنے کی پوزیشن میں ہے اور اس تقسیم سے ڈاکٹر یاسمین کو فائدہ ملنے کا امکان ہے ۔علاوہ ازیں نادرا نے 29ہزار ووٹوں کو تصدیق کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ 29ہزارووٹ بلاک کر دینا چاہئیں تاکہ الیکشن کمیشن پر جانبداری کا حرف نہ آئے۔اپوزیشن امیدوار اب انصاف کے لئے لاہور ہائی کورٹ کا سہارا لے رہی ہیں۔ جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔ اسی طرح کلثوم نواز صاحبہ کے کاغذات نامزدگی پر ریٹرننگ آفیسر نے قانونی حقائق کو مدِّ نظر نہیں رکھا اور اب لاہور ہائی کورٹ کا تین رکنی بنچ ہی کلثوم نواز کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ چونکہ الیکشن کی تاریخ قریب آرہی ہے۔ بیلٹ پیپرز بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں لاہور ہائی کورٹ کلثوم نواز کو مشروط طور پر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں