"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی حالات اور مردم شماری!

چوہدری نثار علی خان ملک کی بقاء کو لاحق ایسے خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا چوہدری نثار علی خان اور نوازشریف سمیت ملک کے کل پانچ افراد کو علم ہے۔ انہوں نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی جدوجہد میں قومی اداروں سے تصادم کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے کہ اس روش سے پاکستان کسی المیے سے دوچار ہو سکتاہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو عمران خان اور آصف علی زرداری سے تو کوئی خطرہ نہیں ۔ البتہ اسے خود اپنی صفوں سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اندرونی اختلافات ابھر کر سامنے آگئے ہیں جو نوازشریف کو ذہنی و نفسیاتی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں گمان ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو پاکستان کی عسکری قوتوں سے تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد سے لاہور تک ریلی اور اس کے بعد میاں نواز شریف کے طرز عمل سے بہت کچھ واضح ہوتا ہے ۔ان حالات میں چوہدری نثار علی خان کے کھل کر سامنے آنے کے بعد اندرونی اختلافات کی تردید کرنا بھی مشکل ہے۔ جس مشکل کا پارٹی اور اس کی قیادت کو سامنا ہے وہ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے۔ جب نوازشریف اور ان کے فیملی کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہے ۔ نظرثانی کی درخواستوں کا فیصلہ آنے اور نیب ریفرنسز میں پیش رفت کے ساتھ اندرونِ پارٹی یہ انتشار مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ پارٹی کے بارے میں نوازشریف کو انتہائی اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ پیش گوئیاں ہیں کہ شہباز شریف کے صدر بننے کے بعد پارٹی 1970ء کی پیپلز پارٹی کی مانند ابھر کر سامنے آئے گی کیونکہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان پارٹی میں ایسے ارکان کو سامنے لائیں گے جن کی غیر جانبداری، ایمانداری اور ذہانت کے سب قائل ہوں گے ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف کے لئے مریم نواز کا مسلم لیگ (ن) میں اہم کردار قابل قبول نہیں ہوگا۔ چوہدری نثار علی خان اور ان کے طاقتور ساتھی اپنا وزن شہبازشریف کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں۔ نواشریف سیاسی طور پر منظر سے ہٹ چکے ہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی والیوم 10کے منظر عام پر آنے کے بعد نوازشریف اور ان کے خاندان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کو اس کا مکمل ادراک ہے لیکن وہ خواہاں ہیں کہ ملک میں 12اکتوبر1999ء کی تاریخ دہرائی جائے‘ جو اب ناممکن ہے۔ ان کی قسمت کا فیصلہ انتخابی میدان میں ہی ہونا ہے۔
اختیار کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آج تک کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل1956ء کے آئین کے نفاذکے بعد کی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہائی کورٹ کی طرز پر آئینی اختیارات دئیے گئے مگر اپنے قیام کے بعد سے آج تک یہ کسی شخص یا پارٹی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کر سکا۔ جس پر عوامی نمائندوں اور سرکاری و نجی افراد نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کی توہین کو معمول بنا لیا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے نومبر 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تحلیل ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار فخر عالم سے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تو چیف الیکشن کمشنر نے 10دسمبر 1996ء کو انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ میں نے ہی توہینِ عدالت کا نوٹس مشاہد حسین سید کو ان کے مسلم لیگ آفس مارگلہ روڈ پر بالمشافہ ملاقات میں پیش کیا ۔ توہینِ عدالت کے نوٹس کا متن چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)سردار فخر عالم نے خود تحریر کیا تھا۔ مشاہد حسین سید نے جونہی یہ نوٹس وصول کیا ،وہ حواس باختہ ہو گئے اور بے خیالی میں کہہ گئے کہ نواشریف نے پارٹی کو ڈبو دیا۔ لہٰذا گوہر ایوب خان سرتاج عزیزاور چوہدری شجاعت حسین کی مشترکہ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ چیف الیکشن کمشنر سے معذرت کرلی جائے۔ گوہر ایوب خان، سرتاج عزیز، چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید نے وفد کی صورت میں چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی چونکہ جسٹس(ر) سردار فخر عالم گوہر ایوب خان کو اپنا بھتیجا تصور کرتے تھے۔ گوہر ایوب نے نوازشریف کا تحریری معافی نامہ پیش کر دیا۔ 
انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے تاحال الیکشن کمیشن کے توہین عدالت کے اختیار اور سزا کے بارے میں شق شامل نہیں کی۔ جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے تحت ہائی کورٹ کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کی تقرری، حلف اور برطرفی کا طریقہ کار بھی ہائی کورٹ کے ججز کی طرح ہے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں کوئی شک نہیں رہتا۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان مکمل عدالتی اختیارات ہونے کے باوجود آج تک کسی عوامی نمائندے یا سرکاری عہدیدار کے خلاف آئین کے آرٹیکل 204اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 103-Aکے تحت توہینِ عدالت کی کاروائی نہیں کر سکا۔ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک کئی سیاسی رہنمائوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے جس پر بعض کے خلاف اس لئے کارروائی نہ ہو سکی کہ انہوں نے تحریری طور پر معافی مانگ لی۔ جن میں حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور دیگر سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔پارٹی فنڈنگ کا معاملہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 14کے تحت جانچ پڑتال کرنے کا مجاز ہے۔ اس لئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردارمحمد رضا 18ستمبر کو اہم فیصلہ سنانے کا اعلامیہ جاری کر چکے ہیں۔ 
سندھ حکومت نے مردم شماری کا ڈیٹا اپنی نگرانی میں مرتب کرنے کے اختیارات حاصل کر لئے تھے جو کہ وفاق کے قواعد و ضوابط کے مطابق آئین سے انحراف تھا اور ان خدشات کے ازالے کے لئے سندھ کی سیاسی جماعتوں کا اعتماد بھی بحال نہیں کیا گیا۔عدالت عظمیٰ نے 15مارچ 2017ء سے مردم شماری کرانے کے احکامات دئیے تو ساتھ یہ ریمارکس بھی دئیے تھے کہ مردم شماری کے بغیر الیکشن مذاق ہوں گے۔ ان ریمارکس کی رُو سے اگر مردم شماری کے نتائج قومی، علاقائی یا سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دئیے تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان حلقہ بندیاں کرانے سے قاصر رہے گا اور نگران حکومت کے قیام کے بعد اگر کوئی فریق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 224کے تحت کیس دائر کر دیتا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن کا انعقاد غیر آئینی ہے تو پھر نگران حکومت کا دورانیہ نوے روز سے متجاوز ہونے کے امکانات ہیں۔
مردم شماری کے محکمے نے مردم شماری کا جو عبوری ڈیٹا جاری کیا ہے، سائنٹفک فارمولا لگا کر اس نے Manipulated Figure ظاہر کی ہے ۔ اگر آپ 1998کی مردم شماری اور موجود سمری میں House Holdکا Average دیکھیں تو وہ تقریباً Sameہے۔مردم شماری کے محکمے نے کراچی کی آبادی کے بارے میں بھی یہی سائنٹفک فارمولا لگا دیا ہے ،جس سے کراچی کی آبادی کم ظاہر ہوئی ہے، یہ حقیقی رزلٹ نہیں ، تمام مفروضے ہیں۔ کراچی میں نیوکلیئر فیملی سسٹم رائج ہے۔ جب کہ دیگر صوبوں میں اکثریت مشترکہ فیملی سسٹم برقرار ہے۔ لہٰذا انہوں نے مفروضے کی بنیاد پر کراچی کی آبادی کی عبوری رپورٹ پیش کی ہے جو حقیقی نہیں ۔ 1998ء کی مردم شماری کو Baseبناکر اپنے اندازے کے مطابق آبادی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک فائونڈیشن کی ریسرچ ٹیم اس پر کام کر رہی ہے۔ ہم مردم شماری کی اتھارٹی کو گول میز کانفرنس پر مدعو کریں گے۔ ہمارے ماہرین کی ٹیم اپنا جو ڈیٹا پیش کرے گی، اس سے چشم کشا حالات قوم کے سامنے آجائیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں