"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ 120: انتخابی اخراجات کا جائزہ لیا جائے!

میرے خیال میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے پس منظر میں نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے چلائی جانے والی زبردست مخالفانہ تحریک کے باوجود قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز کی جیت صوبائی اور وفاقی حکومت کے ذرائع و وسائل استعمال کرنے سے ممکن ہوئی۔ مبصرین نے اپنے طور پر انتخابی عمل میں 419 بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی‘ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 39 پولنگ سٹیشنوں پر بائیومیٹرک مشینوں کا استعمال کیا، جو ایک اچھا تجربہ تھا۔ 29 ہزار ووٹروں کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے‘ لیکن زمینی حقائق کے مطابق عدالت ان کی اپیل کو الیکشن ٹربیونل میں لے جانے کی ہدایت جاری کر دے گی‘ کیونکہ ان ووٹوں کی جانچ پڑتال کے لیے ان کے شناختی کارڈ چیک کرانے ہوں گے‘ جو ہمارے الیکشن قوانین کے مطابق طویل جدوجہد کے متقاضی ہیں۔ ویسے ان 29 ہزار افراد کو شناختی کارڈ جاری کرنے کی ذمہ داری تو نادرا پر ہی عائد ہوتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مخصوص منصوبہ بندی کے تحت الزام عائد کر دیا کہ انتخاب سے ایک روز قبل ان کے درجنوں اہم ورکروں کو اٹھا لیا گیا۔ حالات یہ تھے کہ متعلقہ اداورں نے ان بدمعاش ارکان پر نگاہ رکھی ہوئی تھی جنہوں نے پولنگ کے دن جعلی ووٹ کاسٹ کروانے تھے۔ 
بدقسمتی سے تحریک انصاف میں منظم منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ بیشتر ارکان کا تعلق اندرونی طور پر مسلم لیگ (ن) کے مقتدر حلقوں سے تھا‘ لہٰذا ن لیگ کے کسی رہنما نے رزلٹ تبدیل کرانے کے منصوبے کی نشاندہی نہیں کی۔ 11 مئی 2013ء کی رات کو بھی میبنہ طور پر یہی کچھ ہوا تھا اور نتائج کچھ کے کچھ ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ہر حلقہ میں ایسے عناصر کا گروہ تیار کر رکھا ہے‘ جو انتخابات کی رات کو رزلٹ تبدیل کرانے کا ماہر ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو اس کا ادراک ہی نہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ سارے معاملات ٹھیک ہیں۔
پیپلز پارٹی کے متحرک کارکن فیصل میر نے صرف پندرہ سو ووٹ لے کر عوام میں یہ تاثر مضبوط کر دیا کہ خورشید شاہ کے رویے اور آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی نے پیپلز پارٹی کو پنجاب بدر کر دیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔ یہ صورتحال آصف علی زرداری کے سنجیدہ سوچ بچار کی متقاضی ہے۔ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد انتہائی محنتی اور قابل خاتون ہیں اور جس محنت کے ساتھ انہوں نے اپنی انتخابی مہم چلائی اسے سب پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بیگم کلثوم نواز کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن اخراجات کے حوالے سے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 49 اور 50 کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے اخراجات کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے تھی۔ حلقہ 120 میں دونوں جماعتوں کی جانب سے کروڑوں روپے کے اخراجات ہوئے تو حکومتی جماعت کی امیدوار محض 15 لاکھ روپے خرچ کر کے قومی اسمبلی کی ممبر کیسے منتخب ہو گئیں؟ انہوں نے اخراجات کی جو تفصیل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائی وہ ان کے حلف کی عکاس نہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ ہائے اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی رہی‘ اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ تقریباً سب ہی امیدواروں نے ضابطہ اخلاق کو نظر انداز کیا۔ اگر اس بارے میں کوئی اقدام نہ کیا گیا تو آئندہ انتخابات میں بھی ضابطہ اخلاق کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ اس صورتحال سے یہ تاثر ابھرے گا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ ناقابل بیان حد تک کمزور ہو گئی ہے۔ حلقہ 120 کے لئے پولنگ کے عملے کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنے کے بعد پریذائیڈنگ آفیسرز مقرر کئے گئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معزز ممبر جسٹس ابراہیم الطاف ریٹرننگ آفیسر کی کارکردگی کو دیکھتے رہے لیکن وفاق اور پنجاب کے وزیر داخلہ، چیف سیکرٹری پنجاب کے اسسٹنٹ کمشنر تک سب ہی حکمران جماعت کے احکامات کو تسلیم کرتے رہے۔ اسی طرح اطلاع ہے کہ لاہور کا سی سی پی او چوبیس گھنٹے مریم نواز صاحبہ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے صبح سے رات گئے تک نظر آتا رہا۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ نادرا میں حکمران جماعت کے پچاس کے لگ بھگ آفیسر موجود ہیں جو ووٹوں کی منتقلی کے ماہر ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ تحریک انصاف کے وہ تمام ووٹ جن کے بارے میں سپیشل برانچ پنجاب نے نشان دہی کی‘ لاہور کے دوسرے مختلف حلقوں میں منتقل کرا دئیے گئے۔ تحریک انصاف نے اپنا اندرونی سٹرکچر درست نہ کیا تو اس کو اگلے انتخابات میں بھی ایسی ہی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حیرت ہے کہ نادرا ایک وزارت کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کے پاس عوام کی ذاتی معلومات اور شناخت کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے جدید کمپیوٹرائزڈ ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن وہ ووٹرز کے صحیح اعداد و شمار جمع کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور نادرا حکومت کے اشارے پر مخالفین کے ووٹوں کو ان کے مستقل پتے پر منتقل کر دیتا ہے اور اس ضمن میں نادرا ووٹر کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران جماعت کے امیدوار کے مخالف ووٹرز کے ووٹ ان کے مستقل ایڈریس پر منتقل کرتے وقت الیکٹرول ایکٹ 74 کی دفعہ 18 کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کے انتخابی اخراجات کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ 50,49 کے تحت کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ حلقہ 120 کے انتخابات میں پنجاب حکومت کے وسائل انتہائی بے رحمانہ طریقے سے استعمال ہوئے۔ پنجاب کی ساری مشینری حلقہ 120 میں متحرک تھی اور میڈیا کو نظر بھی آ رہی تھی۔ میرے خیال میں کلثوم نواز صاحبہ کے حق میں ووٹروں کی رائے کو ایک خاص حکمت عملی کے ذریعے متاثر کیا گیا اور اس کے علاوہ مریم صفدر نے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس الیکشن میں تقریباً پچاس کروڑ سے زائد خرچ کئے جبکہ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایت تھی کہ کوئی امیدوار پندرہ لاکھ سے زائد خرچ کرنے کا مجاز نہیں۔ صرف حکمران جماعت ہی نے نہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے بھی الیکشن کی مد میں بے پناہ اخراجات کئے ہیں۔ حلقہ 120 کے انتخاب سے متعلق شہباز شریف بظاہر لاتعلق تھے بلکہ لاہور میں موجود ہی نہیں تھے لیکن اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں یہ پروپیگنڈا کرایا جا رہا تھا کہ ان کے مریم صفدر اور ان کے گروہ سے شدید اختلافات ہیں‘ جبکہ اندرونی طور پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنے مشیر خاص رانا مقبول احمد کے ذریعے لندن اور ترکی میں بیٹھ کر انتظامیہ کو احکامات دیتے رہے کہ ہر قیمت پر نواز لیگ نے یہ انتخاب جیتنا ہے۔ اسی طرح نواز شریف لندن میں بیٹھ کر اپنے ورکروں کی الیکشن میں کامیابی کے لئے ہدایات جاری کرتے رہے۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ کم پڑھے لکھے کرپشن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ملک کی سالمیت اور وجود سے کھیل رہے ہیں۔ شنید ہے کہ مریم صفدر نے افواج پاکستان پر تنقید کرنے کے لئے پرویز رشید کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں‘ جو سایہ کی طرح ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس طرح حالات کسی بھی وقت کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ نواز شریف کی حکمت عملی ہی یہی ہے کہ 5 جولائی 77 اور 12 اکتوبر 99 کی طرز پر ان کی حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے تاکہ ان کی اربوں ڈالر کی جائیداد محفوظ ہو سکے اور وہ ایک بار پھر مظلوم بن کر عوامی ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں