"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات بل

انتخابی اصلاحات کے جس بل کی منظوری دی گئی ‘ اس سے سابق وزیراعظم نوازشریف کے لئے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہو گئی اور وہ پارٹی صدر بن بھی گئے ہیں۔ سینیٹ نے‘ جس کے حوالے سے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے فیصلہ کن طاقت ہونے کا تاثر نمایاں تھا‘ اپوزیشن کی ان ترامیم کو ایک ووٹ کی اکثریت سے مسترد کر دیا‘ جن کا مقصد قانون کی اس شق کو برقرار رکھنا تھا‘ جس کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل قرار پایا جانے والا کوئی شخص کسی سیاسی پارٹی کا عہدیدار نہیں بن سکتا۔ اب اس ترمیم سے عمران خان سمیت کئی لیڈروں کے سروں پر لٹکتی ہوئی وہ تلوار ہٹ گئی ہے جو الزامات کی صورت میں نظر آرہی تھی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں پولیٹیکل آرڈر 2002ء کی تمام شقیں سوائے اس کے کہ کوئی ایسا شخص جو بے قاعدگی کا مرتکب ہوا ہو وہ پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا‘ شامل تھیں۔ 
قانون سازی معاشرے اور عوام کیلئے ہوتی ہے کسی فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کیلئے نہیں۔کوئی بے ایمان‘ جھوٹا اور خائن قیادت کا اہل کیسے ہو سکتا ہے؟ آئین کا آرٹیکل 62-63 ایمانداری، دیانت اور صداقت کا تقاضا کرتا ہے مگرایک ایسے شخص کے لئے آئین و قانون کو تبدیل کیا گیا ‘جسے سپریم کورٹ نے بد دیانت قرار دیا۔ اس ترمیم کی منظوری سے قوم کو سمجھا دیا گیا ہے کہ سب پارٹیوں نے اپنے مفاد کو مدِ نظر رکھا اور تبدیلیٔ قیادت کی سکت محدودہے۔ تحریک انصاف کے سات سینیٹرز نے‘ سوائے اعظم سواتی کے‘ انتخابی اہلیت کی شق وار ترمیم کے بل پر جس طرح غیر حاضر رہ کر نوازشریف کی اہلیت کے لئے راہ ہموار کر دی ہے‘ ا س پر عمران خان کا نئے پاکستان کا سارا فلسفہ زمین بوس ہو گیا اور انہیں بے بسی کے عالم میں کہنا پڑا کہ یہ غیر اخلاقی ہے کہ اتنے سینیٹرز کی غیر موجودگی میں ایک ووٹ کی اکثریت سے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے کے بھی پارٹی صدر بننے کی قانونی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے سات سینیٹرز کی اس اہم قانون سازی پر بے خبری اور عدم موجودگی کا عمران خان کے پاس کیا جواز ہے؟ آصف علی زرداری کی خفیہ مفاہمت سے پیپلز پارٹی کے فاروق نائیک سمیت چار سینیٹرز نے حکومت کے حق میں ووٹ دئیے جبکہ اعتزاز احسن اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت ایک ووٹ سے حکومتی جماعت کو برتری دلانے میں کامیاب ہو گئے۔ تحریک انصاف کے سینیٹرز نے عمران خان سے عملاً بغاوت کی اور ان کی اصولی سیاست کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچایا، لیکن عمران خان اپنی پارٹی کے سینیٹرز کا احتساب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنی حکمت عملی کے ساتھ اس بل کی منظوری کیلئے نام نہاد ناراضگی کا سوانگ رچایا ۔ میرے خیال میں اس کارنامے کے لئے ان کو آصف علی زرداری کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو منع کیا گیا کہ وہ بل کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے تو خلاف بھی ووٹ نہ دیں۔ شجاعت حسین کی مسلم لیگ کی سینیٹر روبینہ عرفان اور مشاہد حسین سید بھی خاموشی سے ایوان سے غیر حاضر رہے۔ میرا قیاس یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے عطاء الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کے الیاس بلور سے بھی مفاہمت ہو چکی تھی۔ سراج الحق صاحب اگر سینیٹ میں موجود رہتے تو حکومت کی شکست یقینی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بیرسٹر سیف اور فروغ نسیم نے بھی اس مشکل وقت میں مخالفت میں ووٹ نہ ڈال کر نواز شریف کو سیاسی راستہ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
میری ناقص رائے کے مطابق ایسی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ جن سینیٹرز نے اپنے مفادات کے تحت حکمران جماعت کا بلا واسطہ یا بالواسطہ ساتھ دیا‘ ان کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ ایسی ترمیم نہیں ہو سکتی۔ جھوٹ، سچ، جزا و سزا کی قدر میں آئین کا آرٹیکل 2-A بھی اساسی حیثیت رکھتا ہے اور سپریم کورٹ اس آرٹیکل کی محافظ ہے۔
کون نہیں جانتا کہ نواز شریف کے مفادات کے لئے یہ ترمیم کرائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو آرٹیکل 62-63 کے مطابق نااہل ہو‘ اہل ہو جائے گا۔ یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں آئین سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا۔ یہ ترمیم چند مفاد پرست سیاسی جماعتوں کی باہمی ساز باز کا نتیجہ لگتی ہے اور اس سے تحریک انصاف کے بعض سینیٹرز کے ذاتی مفادات آشکار ہو گئے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے بے شمار اندرونی مسائل ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار کا ان پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس ترمیم کے نتیجے میں ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ ایک ایسا شخص ہو گا جو خود پارلیمنٹ میں داخل ہونے کا اہل نہیں‘ لیکن وہ ملکی معاملات چلانے کے لئے سیاست پر مسلط رہے گا۔ اس ترمیم کی وجہ سے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 63 سے شرطیہ جملے (Provision) خارج کرنے کی کوشش اس لئے کی گئی کہ جو حضرات نام نہاد سیاسی لیڈران ہیں‘ وہ نہ تو صادق ہیں اور نہ امین، اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کی سربراہی کے اہل قرار پائیں گے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ترمیم نواز شریف اور چند دیگر سیاسی رہنمائوں‘ جو نااہلیت کے ریڈ زون میں داخل ہو چکے ہیں‘ کو فائدہ پہنچانے کے لئے خفیہ مفاہمت کا حصہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی شاطرانہ چال کامیاب ہو گئی۔ قوم کو جاگنا چاہیے کہ اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں اور پارلیمان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگائیں۔ صرف اعتزاز احسن ہی مسلم لیگ (ن) کی سازش کی نشاندہی کر سکے کہ انتخابی اصلاحات بل کے پس پردہ کیا ہونے والا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اعتزاز احسن کی آخری وقت میں کی گئی کوشش آصف علی زرداری نے ناکام بنا دی کیونکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چار ارکان غائب ہو گئے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے نااہل وزیراعظم کے لئے دوبارہ پارٹی صدارت کا راستہ بنا لیا۔
یہ صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں منشور، نظریات اور پروگراموں کی بجائے شخصیات کے حوالے سے چلتی ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں عوام پارٹیوں کے منشور دیکھ کر ان میں شامل ہوتے ہیں اور کسی معاملے میں اختلاف رائے پیدا ہو تو پارٹی کے اندر ہی تبادلہ خیالات کر کے قیادت تک بدل دینے کے فیصلے کر لئے جاتے ہیں۔ آمریت کے دور میں شامل کی گئی ایک اہم شق کو آج تک زیر بحث نہیں لایا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں چیف ایگزیکٹو آرڈر 2002ء کے تحت قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 207 سے 272 اور خواتین کی قومی اسمبلی میں 60 نشستیں بڑھا دی گئی تھیں۔ اسی طرح سینیٹ میں سیٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس بھارت کی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے لیکن وہاں ایوانِ زیریں کے ارکان کی تعداد 542 ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں آمریت کی اس نشانی کو تحفظ دیا گیا‘ لیکن اب انتخابی اصلاحات کمیٹی نے پولیٹیکل پارٹیز گزٹ 2002ء کی شق 5(i) کو آمریت کی نشانی سمجھ کر حذف کر دیا ۔ کیا اس منافقانہ سوچ سے عوام آگاہ ہیں کہ اپنے مفادات میں وہ تمام شقیں‘ جو آمریت نے شامل کی تھیں اور جن سے ان کے ذاتی مفادات وابستہ تھے‘ اٹھارہویں ترمیم میں ان کو آئینی تحفظ دیا گیا لیکن اب نواز شریف کو محفوظ راستہ دینے کے لئے اس اہم شق کو حذف کرا دیا گیا۔ قوم کو ایسے بے رحم، ذاتی مفادات کے اسیر رہنمائوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ نیشنل ڈیموکریٹک فائونڈیشن ایسی انتخابی رائونڈ ٹیبل کانفرنس کا انعقاد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں ہم قوم کو ایسی شقوں‘ جن سے ہمارے سیاسی رہنمائوں کو فوائد حاصل ہو رہے تھے اور جو آمریت میں نافذ کرنے کے باوجود برقرار رکھی گئیں‘ اور جن شقوں سے ان کے مفادات زد میں آ رہے تھے کو آمریت کے نام پر حذف کرا دیا گیا‘ کے بارے میں بتائیں گے۔ جن سیاسی رہنمائوں کو سپریم کورٹ آئندہ نااہل قرار دینے والی ہیں ان کی بھی ڈوبتی کشتی کو حالیہ ترمیم نہیں بچا سکتی۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں