"KDC" (space) message & send to 7575

حکمران جماعت کے لئے لمحہ فکریہ

احتساب کورٹ نے نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر فرد جرم عائد کر دی ہے اب نواز شریف کو تنہائی میں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے نادان مشیروں کے کہنے پر اس بار اپنے والد مرحوم کی نصیحت کے برعکس اداروں کی سہولت کاری سے محروم ہو گئے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے بل میں ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے''حلف نامے‘‘ کو'' اقرار نامے‘‘ میں تبدیل کرنے سے پاکستان کے ہر گھر میں نواز شریف کے خلاف باتیں عام ہیں۔ اس طرح نواز شریف کا بھارت کے مسلمانوں کے قاتل مودی کے ساتھ ذاتی مراسم بڑھانے اور بھارتی سرمایہ کاروں کو جاتی امراء اور مری میں اپنی ذاتی رہائش گاہوں میںمہمان کا درجہ دینے سے بھی پاکستان کے حساس حلقے نا خوش ہیں۔ پاکستان کی ایک روحانی شخصیت‘ مولانا بشیر فاروق جو ایک ٹرسٹ کے سر پرست اعلیٰ ہیں، کا کہنا ہے کہ نوازشریف اللہ کی گرفت میں آ گئے ہیں۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ نواز شریف کے وزرا نے جس پراسرار انداز میںکاغذات نامزدگی کے فارم میں ردّ و بل کرایا اور صدر پاکستان سے دستخط کرا کے اسے قانونی شکل دلوائی، اس سے صدر مملکت بھی انتہا درجے کی غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہیں بھی توبہ کرتے ہوئے اپنی اس کوتاہی کا کفارا ادا کرنا ہو گا۔
شریف خاندان کا جب سے احتساب شروع ہوا ہے‘ اس وقت سے شریف خاندان کی اداروں کے خلاف سازشوں میں شدت آ گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے بیانات سے انتشار کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اور احتساب عدالت میں ہلڑ بازی اسی سلسلہ کی ایک کڑی قرار دی جا رہی ہے تاکہ احتساب کے عمل کو روکا جا سکے۔ اسی طرح صدر مملکت پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر صدر فاروق لغاری کی حکمت عملی اپناتے ہوئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے آئینی رائے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ صدر مملکت ایسے ریفرنس بھجوانے کے لئے کسی ایسے ماہر قانون کی خدمات بھی لے سکتے ہیں جس سے نوازشریف بھی مطمئن ہوں۔ اس طرح ملک معاشی بحران سے بھی باآسانی باہر نکل آئے گا اور وزیراعظم بھی اپنی کابینہ کے ہمراہ حکومت کرتے رہیں گے۔ ملک میں احتساب کا عمل‘ جو کہ چھ ماہ میں مکمل کرنا مقصود ہے، اس حوالے سے وزیراعظم بھی قوم کے اضطراب کو محسوس کر ہی رہے ہوں گے۔ خا ص طور پر ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی حرکت کو!
یہ ایک ایسا پراسرار اندازِ فکر ہے جس کا جواب آج اور آنے والی نسلیں بھی مانگ سکتی ہیں۔ اس سازش کو ناکام بنانے میں ملک کا طاقتور‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پیش پیش تھا اور اس پر وہ ستائش کا بھی مستحق ہے۔ راقم الحروف نے تین ماہ پیشتر ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اور میرے کالم اس امر کے شاہد ہیں۔ میں نے ملک کے صف اول کے الیکٹرانک میڈیا پر اپنے خدشات کا اظہار کر دیا تھا۔ ملک اس وقت جس بحران سے دوچار ہے‘ اس میں انتہا درجے کی بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ ان حالات میں صدر مملکت، وزیراعظم، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، قومی اسمبلی کے سپیکر، چیئرمین سینیٹ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف مل بیٹھ کر گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے فیصلہ کریں۔ ایک طویل مگر ثمر بار نشست کے بعد ایک ہی دن میں ملک کے مفاد میں مشترکہ اعلامیہ جاری کر کے ملک کو بحران سے بچایا جا سکتا ہے اور مذکورہ آرٹیکلز 234, 232, 5اور 235 کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ آرٹیکل 5 ملک کی اعلیٰ شخصیت کو مکمل اختیارات تقویض کرتا ہے۔
نوازشریف اشارتاً جس ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اس کا فلیش بیک دیکھیں تو کچھ یوں نظر آئے گا ''جب 1980ء کے اوائل میں کورکمانڈر جنرل اقبال تبادلہ ہونے پر رخصت ہوئے تو انہوں نے نئے آنے والے کور کمانڈر جنرل غلام جیلانی سے نوجوان صنعت کار نواز شریف کا تعارف کرایا۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے آگے بڑھایا۔ جنرل حمید گل نے راستہ دکھایا۔ جنرل اسد درانی نے 1990ء میں وزارت عظمیٰ تک پہنچایا اور جنرل جاوید ناصر ان کے مشیرِ اقتدار رہے اور جنرل ضیاء الدین بٹ نے ان کو سعودی عرب کی راہ دکھائی‘‘۔ اب اسی ادارے پر الزامات لگانے کی اصل وجہ کیا ہے؟
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں کمرۂ عدالت کے باہر وکلاء اور پولیس کے تصادم اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وکلاء کی ہنگامہ آرائی اور عدالتی کارروائی نہ چلنے دینے کی دھمکی کے پیش نظر حالات سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ سرِدست حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کی ہے اور اسلام آباد کی انتظامیہ بھی حکومت کے تابع ہے، نواز شریف کے خلاف مقدمہ وفاق بنام نوازشریف زیرِ سماعت ہے اور ریاست ہی فریق ہے۔ حکومتی وزرا رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتساب کورٹ کی کارروائی میں مداخلت کر رہے ہیں‘ انہیں وفاق کے مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ یہ صورتحال بلاشبہ وزیراعظم اور ان کی وفاقی اور صوبائی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے دور میں نوازشریف کی سپریم کورٹ پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے سپریم کورٹ پر کئے گئے حملے کا سیاہ داغ ابھی تک مسلم لیگ کے دامن سے مٹ نہیں سکا۔ اب مسلم لیگ(ن) اپنے ہی دور حکومت میں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کر کے امن و امان کی صورتحال بگاڑ رہی ہے۔ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے انسپکٹر کو تھپڑ مارتے دکھائی دے رہے ہیں‘ جسے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے نمایاں طور پر شائع کیا۔ اب اگر رویہ یہ ہو تو پھر حکومت کی بساط لپیٹے جانے کی ہی نوبت آئے گی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اس کے قائدین کیلئے ایسے حالات کی ذمہ داری سے خود کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اگر نواز شریف اور ان کے خاندان کے ارکان نے ''ہم نہیں تو کوئی نہیں‘‘ والی پالیسی اپنا لی ہے جس کی بنیاد پر احتساب عدالت کی کارروائی چلنے نہ دینے کی کوشش کی گئی تو اس سے بڑی سیاسی خیانت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اپنے مفادات کی سیاست کے لیے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نواز شریف ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر کسی طور آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ اگر نواز شریف اور ان کے خاندان کے ارکان کو اپنے خلاف دائر ریفرنسوں پر کسی قسم کے تحفظات ہیں تو ان کے پاس مُجاز عدالتی فورم پر اپیل میں جانے کا حق موجود ہے۔ ان کے پاس اعلیٰ عدلیہ کے وکلاء کی ٹیم موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں موجود بعض بااثر حلقے بھی نوازشریف کی قیادت کی اختیار کردہ تصادم کی پالیسی پر مضطرب نظر آرہے ہیں جس کا اظہار چوہدری نثار بہت پہلے اور کھل کر اپنی پریس کانفرنس میں کر چکے ہیں۔ نوازشریف کی موجودہ سوچ غیر جمہوری ہے، انہیں اس پر ان کو نظرثانی کرنی چاہیے۔
وزیراعظم شاہد خاقان اور ان کی کابینہ کے ارکان کو احساس ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں شریف خاندان کیخلاف ریفرنس میں مملکت پاکستان فریق ہے۔ نیب ریاستی ادارہ ہے۔ عدلیہ میں کارروائی ایک ریاستی عمل ہے۔ اس پر تمام اخراجات مملکتِ پاکستان کے ہو رہے ہیں مگر وزیراعظم سمیت وزراء ریاست کے دوسرے فریق کیساتھ کھڑے ہیں۔ یہ صورتحال اب زیادہ عرصہ نہیں رہے گی۔
پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے۔ اداروں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ بات بھی اب عیاں ہو چکی کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد حکمران جماعت کے درجنوں ارکان اسمبلی نواز شریف سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے لئے مختلف جگہوں پرخفیہ اجلاس کر رہے ہیں۔ اگر ٹکرائو کی پالیسی جاری رہی تو نومبر کے پہلے ہفتے میں ایسے اقدامات و واقعات متوقع ہیں کہ حکمران جماعت کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں