"KDC" (space) message & send to 7575

مقررہ وقت پر الیکشن کا انعقاد ؟

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی عام انتخابات کے لئے ووٹرز کی تعداد اس بار 10 کروڑ سے زیادہ ہو گی۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس سے قبل کبھی نہ تھا۔ نئی حلقہ بندیوں کا نہ ہونا یقینا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس لئے آئندہ عام انتخابات کا قبل از وقت تو کیا بروقت انعقاد بھی انتہائی مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی حالات نہیں، انتظامی معاملات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے دانستہ طور پر مردم شماری کے انعقاد میں تاخیر کرائی۔ جون 2014ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے وزیر اعظم نواز شریف کو سمری بھجوا دی تھی کہ مردم شماری کا انعقاد فوری طور پر کروایا جائے تاکہ مردم شماری کے تمام مراحل 2015ء تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی حلقہ بندیاں کروا سکے۔ ہماری اطلاع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تجویز وفاقی وزیر خزانہ، اقتصادی امور اور شماریات ڈویژن کو بھجوا دی اور جناب اسحاق ڈار چونکہ 60 کے لگ بھگ کمیٹیوں کے چیئرمین تھے‘ لہٰذا انہوں نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس اہم سمری کو نظر انداز کر دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے 15 مارچ 2017ء کو مردم شماری کروانے کے احکامات جاری کر دئیے۔ مردم شماری میں تساہل کے باعث نئی حلقہ بندیاں کرانے میں بہت تاخیر ہو گئی ہے۔ اب نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں تو ان پر اعتراض ہو گا۔ تاہم نئی حلقہ بندیاں ہی نہیں دیگر کئی مسائل بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ بات کسی بھی جمہوری ملک کے لئے تشویشناک ہے کہ وہاں انتخابات کا انعقاد انتظامی، آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے مشکل ہو جائے۔
مردم شماری کے محکمے کی نااہلی کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان دوراہے پر نظر آرہا ہے۔ اگر مردم شماری کا محکمہ اپنے سابقہ شیڈول کے مطابق مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹی فکیشن جاری کر دیتا اور الیکشن کمیشن یہ حلقہ بندیاں نومبر میں شروع کرا دیتا تو انتخابات اگست 2018ء یا اس سے پہلے ہو جاتے۔ سردست مردم شماری کے مکمل نتائج اپریل 2008ء سے قبل مرتب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ مکمل نتائج آنے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے لئے 6 ماہ کا وقت درکار ہو گا۔ یعنی اگر انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر ہوں تو اکتوبر 2018ء یا اس کے بعد ہوں گے۔ اگر نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات نہ ہوئے تو آئینی ضرورت پوری نہیں ہو گی اور ان انتخابات پر آئینی اور قانونی اعتراضات ہوں گے۔ لامحالہ نگران حکومت کو الیکشن کے انعقاد میں چند ماہ کی توسیع کے لئے آئین کے آرٹیکل 254 کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ریفرنس بھجوانا ہو گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 10 کروڑ سے زائد ووٹرز کے لئے پورے ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ پولنگ سٹیشنز قائم کرنے ہوں گے جن کے لئے تقریباً ستر ہزار سے زائد پولنگ عمارتیں درکار ہوں گی۔ تاہم چاروں صوبوں اور قبائلی علاقہ جات میں دستیاب عمارتیں مطلوبہ تعداد سے کم ہیں۔ علاوہ ازیں تقریباً تیرہ لاکھ کا انتخابی عملہ درکار ہو گا‘ کیونکہ ہر پولنگ سٹیشن پر عملہ کی تعداد الیکشن رولز کے مطابق تیرہ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس حوالے سے جو فہرستیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کی ہیں ان کے مطابق انتخابی عملہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہو رہا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ابھی تک عملے کی تربیت کا کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا گیا ہے۔ درکار عملے کی تربیت کے لئے کم از کم 8 ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ سکیورٹی کے لئے فوج، پیراملٹری فورسز اور پولیس کی مطلوبہ نفری پوری کرنے کے لئے ابھی تک کوئی واضح پروگرام وفاقی یا صوبائی حکومتوں کو نہیں دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابات کے لئے کم از کم 25 کروڑ بیلٹ پیپر شائع کرنا ہوں گے‘ کیونکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے ہر ووٹر کو دو بیلٹ پیپر فراہم کرنا ہوتے ہیں اور ہنگامی صورتحال کے لئے رولز کے مطابق کم سے کم دو فیصد یا تین فیصد زائد بیلٹ پیپرز شائع کرنا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سکیورٹی کے حامل صرف تین پرنٹنگ پریس ہیں۔ یہ ہیں: پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، سکیورٹی پرنٹنگ پریس اور پاکستان پوسٹ فائونڈیشن پرنٹنگ پریس۔ ان کی خدمات حاصل کرنے کے لئے کیبنٹ ڈویژن کی اجازت حاصل کرنا ہو گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے نئی انتخابی فہرستیں مرتب کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن وفاقی ادارہ شماریات نے ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نئے CENSUS بلاکس اور کوڈز فراہم نہیں کئے ہیں۔ اس طرح نئی انتخابی فہرستوں پر بھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ اگر یہ کام نومبر سے شروع ہو تو اس کی تکمیل میں کم از کم چھ ماہ درکار ہوں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ عام انتخابات سے قبل تمام پولنگ سٹیشنز کو گوگل میپنگ Google Maping سے منسلک کرنا ہے۔ یہ کام بھی تاخیر کا شکار ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو ابھی تک پولنگ سٹیشنز کی حتمی فہرستیں ہی نہیں ملیں۔ انتخابی فہرستوں میں اندراج، ترامیم اور حذف کے لئے نادرا کی مدد سے کمپیوٹرائزڈ الیکٹورل رولز سسٹم ابھی تک کئی اضلاع میں نصب نہیں ہو سکا۔ نئے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی اور تکنیکی اقدامات کرنا ہیں‘ جن کیلئے وقت درکار ہو گا۔ مردم شماری اور انتخابی اصلاحات بروقت نہ ہونے کی وجہ سے یہ تاخیر ہوئی۔ بروقت انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیوں اور نئی انتخابی فہرستوں سمیت کئی معاملات پر نظریہ ضرورت کے تحت کمپرومائیزکرنا ہو گا‘ جس سے یقینا آئینی مسائل پیدا ہوں گے۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کے خلاف درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے عملی سیاست، اخلاقیات کے تقاضوں اور آئین و قانون کے حوالے سے بڑے فکر انگیز نکات اجاگر کئے ہیں جو ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں خاص طور پر پوری قوم کے لئے انتہائی قابل غور ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جمہوریت میں ووٹرز کی رائے ہی کا احترام مقدم ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین کی رو سے یہ ووٹرز کا حق ہے کہ وہ کسی نادہندہ یا نااہل کو ووٹ دیں یا کسی دوسرے شخص کو۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اخلاقی طور پر برا لگتا ہے کہ عدالت سے نااہل قرار دیا جانے والا شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بنے لیکن برا یا عجیب لگنے کی وجہ سے قانون کالعدم نہیں کئے جا سکتے۔ میری دانست میں مکمل طور پر بے داغ قیادت کے لئے عوام کے اخلاقی شعور کو بلند کرنا لازم ہے تاکہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت انہیں اخلاق و کردار کے اعلیٰ معیارات پر بھی پرکھیں۔ جمہوریت میں انتخابات کی شکل میں سیاستدانوں کے احتساب کا خود کار نظام موجود ہوتا ہے اور ان کا احتساب کا اختیار عوام کے ہاتھ میں دینے کے لئے بیلٹ پیپرز پر ''None for Above‘‘ کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ اہل اور دیانتدار قیادت سامنے لانے کے لیے ووٹرز کو یہ حق دیا جائے کہ وہ انتخابی بیلٹ پیپرز پر مذکورہ امیدواروں میں سے ''کسی کو بھی پسند نہیں کرتا‘‘ کا اظہار کر سکے۔ محض اس دو سطری کالم کے اضافے سے ووٹرز آئندہ انتخاب میں اہل قیادت کو آگے لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کے تجویز اور تائید کنندہ کو بھی احتساب کے دائرے میں کھڑا کیا جائے جنہوں نے ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کیلئے تجویز اور تائید کی ہوئی ہے اور پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے پر اگر اس کے خلاف کرپشن کے مقدمات درج ہوتے ہیں تو اس میں ان کے تجویز کنندہ بھی سزا کا حقدار قرار دیا جائے۔ کیونکہ جو شہادت دیتا ہے وہ Omission and Commission میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں