"KDC" (space) message & send to 7575

نشستوں میں اضافہ اور کشیدگی کے خدشات

کابینہ کے اجلاس میں وفاقی حکومت نے آئندہ الیکشن میں نئی حلقہ بندیوں کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے تحت قومی اسمبلی کی جنرل سیٹوں کی تعداد 272 سے بڑھا کر 300 کر دی جائے گی ‘ اور اس مقصد کے لئے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور دیگر جماعتوں نے حکمران جماعت کی تجویز کی حمایت کر دی ہے۔ وفاقی کابینہ کے حتمی فیصلے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نئی آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لئے پارلیمانی لیڈروں سے مشاورت کریں گے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد لامحالہ خواتین کی مخصوص نشستوں میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا اوراس طرح قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 400کے لگ بھگ ہونے کا امکان ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے نشستیں بڑھانے سے متعلق وزارتِ قانون کو آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی حالیہ مردم شماری کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافہ کیا جائے گا۔ میری دانست میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کی روشنی میں جو حلقہ بندیاں کرائی جائیں گی اس سے ملک میں انارکی، انتخابی بحران کے ساتھ ساتھ صوبوں کے مابین کشیدگی میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
مردم شماری کے مقاصد بہت اہم ہوتے ہیں۔ آبادی کو شمار کرتے ہوئے وفاق کی اکائیوں میں نشستوں کی تقسیم عمل میں آتی ہے اور نئی حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 13کروڑ تھی۔ 2017ء کی مردم شماری کی آبادی تقریباً 22کروڑ ہونے کا عبوری نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ اگر 2018ء کے عام انتخابات 1998ء کی مردم شماری کے تحت ہونے والی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوتے ہیں تو ایسے انتخابات سپریم کورٹ میں آئینی طور پر چیلنج ہو سکتے ہیں۔ جمہوریت میں ایک شخص، ایک ووٹ کا اصول سیاسی اور قانونی مساوات کو یقینی بناتا ہے۔ ایک وفاقی اکائی کو اپنی آبادی کی نسبت سے پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان میں پنجاب کی مجموعی آبادی کم ہو گئی ہے۔ اسی تناسب سے پارلیمان میں پنجاب کے لئے مختص کی گئی نشستوں کی تعداد بھی کم ہو جانی چاہیے۔ حلقہ بندیوں کا سائز بھی اتنا ہونا چاہیے کہ شہریوں کے ڈالے گئے ووٹ اور ان کے حقوق کے درمیان توازن قائم رہے۔ حتمی بات یہ ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات کا انعقاد 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کرانے کا مطلب یہ ہے گا کہ مختلف جماعتیں ان کے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے اگلی منتخب شدہ حکومت کا انتقال اقتدار مشکل بنا دیں گی۔
اب الیکشن ایکٹ 2017ء کی طرف آئیے! سیکشن 14کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عام انتخابات سے کم از کم چار ماہ پہلے جامع الیکشن پلان طے کرے جس میں تمام قانونی اور انتظامی امور شامل ہوں جو عام انتخابات کے لئے ضروری ہیں۔ ان تیاریوں میں نئی حلقہ بندیاں، انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی، ہر حلقے کے پولنگ سٹیشنز کی فہرستیں شامل ہیں۔ 
انتخابی فہرستوں کا معاملہ یہ ہے کہ یہ اس وقت مکمل ہو سکتی ہیں جب حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہو جائے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 28, 30, 34 اور 35کے تحت الیکشن کمیشن ابتدائی انتخابی فہرستیں 30روز کے لئے جاری کرتا ہے۔ 30روز شکایات کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 30روز کے اندر اندر ان شکایات کو رفع کیا جاتا ہے اور حتمی فہرستیں شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے بعد حتمی فہرستوں کی اشاعت کے لئے تین ماہ درکار ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ یہ سب کچھ 30 اپریل 2018ء تک مکمل ہو جائے۔ اسی طرح دفعہ 39 کہتی ہے کہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے 30دن پہلے کسی انتخابی فہرست کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے لئے 30 مئی 2018ء حتمی تاریخ ہو سکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر الیکشن کمیشن 5 نومبر کو حلقہ بندیوں کا عمل شروع کرتا ہے تو پانچ مئی تک یہ عمل مکمل ہوسکے گا اور گریس پیریڈ دیا جائے تو 30مئی تک۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق حلقہ بندیاں کرنا چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس صرف دو ہفتے باقی بچتے ہیں جن میں آرٹیکل 51کا ابہام دور کرنا اور آرٹیکل 51(5)اور دفعہ 17میں ترمیم کی جانی ہے۔ الیکشن کمیشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ حالیہ مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرے۔ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت 31مئی 2018ء کو ختم ہونے جارہی ہے اور حلقہ بندیاں اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل کرانا آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔
اب ایک اور معاملے پر غور کرتے ہیں۔ سینیٹ نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیئے جانے والے فرد کوکسی سیاسی جماعت کے عہدیدار یا سربراہ بننے کے لئے نااہل کرنے کے بارے میں انتخابات کے قانون میں ترمیم کا بل گزشتہ ہفتے کثرت رائے سے منظور کر لیا‘جو نواز شریف کی نئی آزمائش ہے۔ تاہم سینیٹ کے منظور کردہ متذکرہ بل کے قومی اسمبلی میں آنے سے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی صفوں میں واضح تقسیم کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر قومی اسمبلی کے ایوان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے چند ارکان نے بھی اس بل کے حق میں ووٹ دے دیا‘ جس کے آثار نمایاں بھی ہوتے نظر آرہے ہیں‘ تو یہ عددی بنیادوں پر مسترد ہونے کے باوجود نواز شریف کی قیادت پر کئی سوالات کھڑے کر جائے گا اور جب مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں پارٹی قیادت کے ساتھ اختلاف رائے کے دروازے کھلیں گے تو نوازشریف کے لئے اپنی قیادت اور پارٹی سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
پاناما کیس میں اسمبلی رکنیت اور پارٹی قیادت سے نااہلی کے بعد جس سرعت سے انتخابی اصلاحات بل کی شق 203 میں نئی ترمیم منظور کر کے نوازشریف کو دوبارہ پارٹی صدر منتخب کیا گیا۔ اس میں کسی قسم کا قانونی سقم نہ ہونے کے باوجود سیاسی اور قانونی حلقوں میں اس اقدام کو سراہا نہیں گیا اور نوازشریف کو دوبارہ پارٹی صدر منتخب کرنے کے اقدام کو سیاسی اور اخلاقی بنیادوں پر غلط فیصلے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جس کی بنیاد پر نوازشریف کو متذکرہ ترمیمی بل کی روشنی میں پارٹی کی صدارت برقرار رکھنے کے معاملہ میں پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت اور دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کے معاملے میں ہوا کے بدلتے ہوئے رُخ کا اس بات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں اور فاٹا کے ارکان سمیت جن ارکان نے انتخابی اصلاحات بل کی شق 203 میں ترمیم کے لئے حکومت کے پیش کردہ بل کے حق میں ووٹ دیا اور سینیٹ میں مسلم لیگ(ن) کو اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود اس بل کی منظوری کے لئے کامیابی حاصل ہوئی‘ انہی جماعتوں اور فاٹا کے ارکان کی جانب سے اپوزیشن کے پیش کردہ ترمیمی بل کی حمایت کی گئی اور سینیٹ میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی فضل الرحمن گروپ کے صرف 18ارکانِ سینیٹ اس ترمیمی بل کی مزاحمت کرتے نظر آئے‘ جبکہ ووٹنگ کے وقت مسلم لیگ (ن) کے ارکان سینیٹ پرویز رشید، نہال ہاشمی، مشاہد اللہ خان اور نثار محمد خان کا ایوان سے غائب ہونا بھی معنی خیز ہے کیونکہ وہ اس بل کے خلاف ووٹ دے کر بل کے مخالف ارکان کی تعداد میں اضافہ کر سکتے تھے۔ اس تناظر میں مصلحت اور دانش مندی کا یہی تقاضا ہے کہ نواز شریف انا پرستی کی بنیاد پر مزاحمتی سیاست کی پالیسی ترک کر کے وقتی طور پر پارٹی قیادت اپنی پارٹی میں کسی مخلص دیرینہ ساتھی مثلاً چوہدری نثار علی خان کو سونپ کر اپنی ساری توجہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے خلاف دائر قومی احتساب بیورو کے ریفرنسوں میں خود کو سرخرو کرانے پر مبذول کریں۔ وہ انصاف کی عمل داری میں ان ریفرنسوں میں سرخرو ہو کر آئیں گے تو آئندہ انتخابات میں وہ عوام کی عدالت میں بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔ بصورت دیگر اپنی نااہلیت کے باوجود دوبارہ پارٹی صدارت سنبھالنے کے لئے‘ چاہے جائز طریقے سے ہی سہی، پارلیمنٹ میں منظور کرایا گیا قانون بھی انہیں زیادہ دیر تک سہارا نہیں دے سکتا اور اگر نیب عدالتوں نے ان کو سزا دی تو وہ قومی احتساب بیورو کے قوانین کے تحت اکیس سال کے لئے نااہل ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں