"KDC" (space) message & send to 7575

آئین و قانون کا احترام

الیکشن کمیشن نے عائشہ گلالئی کی نااہلی سے متعلق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا ریفرنس جو قومی اسمبلی کے سپیکر کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 63(A)کے تحت بھجوایا گیا تھا مسترد کر دیا ہے۔ اصولی طور پر الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس مسترد کیا ہے اور میڈیا نے اس قانونی نکتہ کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی رُوسے عائشہ گلالئی رکن قومی اسمبلی برقرار رہیں گی۔ الیکشن کمیشن کے پانچ میں سے تین ارکان نے گلالئی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے جو اس کا حق ہے۔ قانونی طور پر تحریک انصاف کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا۔ واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے اکتوبر 2006ء میں عمران خان کی نااہلیت کے بارے میں ریفرنس قومی اسمبلی کے سپیکر چوہدری امیر حسین کی وساطت سے الیکشن کمیشن کو بھجوایاتھا ۔ جسے الیکشن کمیشن کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمد فاروق نے ٹیکنیکل بنیاد پر مسترد کر دیا تھا۔ آئین و قانون کے مطابق جب الیکشن کمیشن ریفرنس مسترد کر دے تو بعدازاں اس کو دوبارہ ریفرنس کی صورت میں بھجوانے کے لئے قانون میں گنجائش نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
عائشہ گلالئی کو تحریک انصاف کا بے باک ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ ٹی وی شوز میں وہ ہمیشہ سے عمران خان اور تحریک انصاف کا پرجوش طریقے سے دفاع کیا کرتی تھیں لیکن پھر ایک دن اچانک عائشہ گلالئی نے عمران خان پر ایسے الزامات لگائے جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ عائشہ گلالئی کی عمران خان پر الزام تراشی سے ملکی سیاست میں زلزلہ آگیا۔ جس نے بھی اس کے الزامات سنے دنگ رہ گیا۔ عمران خان ملک کے مقبول سیاست دان ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لئے۔ کہاں پر وہ تحریک انصاف کی صف اوّل کی رہنما تھیں اور کہاں یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے ان کے خلاف الزامات کے انبار لگا دئیے۔ تحریک انصاف کے حلقوں کا دعویٰ تھا کہ انہوںنے مخالفین سے رقم لے کر الزام تراشی کی ہے۔ عائشہ گلالئی کے الزام کی تحقیق کے لئے ایک پارلیمانی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا۔ ایک طرف پارلیمنٹ میں تحقیقات جاری تھی کہ دوسری طرف تحریک انصاف نے اسے جماعت سے نکال کر قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرنے کیلئے سپیکر قومی اسمبلی سے رجوع کر لیا۔ الیکشن کمیشن نے سپیکر قومی اسمبلی سے ریفرنس موصول ہونے پر کئی سماعتوں کے بعد یہ فیصلہ سنایا جسے تحریک انصاف کے رہنما سے لے کرادنیٰ کارکن تک نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف نے اسے ڈی سیٹ کرانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ جب کہ عائشہ گلالئی نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ کسی صورت قومی اسمبلی کی نشست نہیں چھوڑے گی۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کا مختلف فیصلہ ہونا بھی عائشہ گلالئی کے کیس کو کمزور کر گیا۔ اب اسی تناظر میں فریقین زبان بندی کی شرط پر سیز فائر کر لیںتو اچھا ہے۔ اگر یہ لڑائی جاری رہی تو عائشہ گلالئی بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر کے عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کی مقبولیت پر گرہن لگانے کی کوشش کریں گی۔ عائشہ گلالئی طالب علمی کے ایام میں بے نظیر بھٹو کے بہت قریب رہیں اور بے نظیر بھٹو ان کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر تھیں۔ اسی طرح عائشہ گلالئی جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ پشاور کی بھی کلیدی عہدے پر فائز رہیں اور بعدازاں جب جنرل پرویز مشرف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا تو عائشہ گلالئی نے جنرل پرویز مشرف سے مشاورت کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ سیاسی طور پر یہ خاتون پُرعزم ہے اور اس کے لئے پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کے دروازے کھلے ہیں۔ اب چونکہ قومی اسمبلی کی مدت میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں لہٰذا عائشہ گلالئی کی قومی اسمبلی کی نشست کو کالعدم قرار دینے سے تحریک انصاف کو کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوگا۔ اس معاملہ میں خاموشی ہی بہترہے۔
الیکشن کمیشن کے آرٹیکل 63-A کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عائشہ گلالئی کو ریلیف دیا گیا۔ فیصلہ سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر کسی پارلیمانی جماعت میں فارورڈ بلاک بنتا ہے تو اس پارٹی کے رکن پر انٹرا پارٹی فلور کراسنگ کا قانون لاگو نہیں ہو سکے گا اور الیکشن کمیشن سے پارلیمانی پارٹیوں میں فارورڈ بلاک بنانے والوں کے لئے راستہ کھل گیا ہے۔ 12اکتوبر99ء کے سانحہ کے بعد چونکہ پاکستان کا دستور منجمد کر دیا گیا تھا لہٰذا اس آڑ میں چودھویں ترمیم ختم کردی گئی تھی جو نوازشریف نے 1997-98میں پارلیمنٹ کے ارکان کو یرغمالی بنانے کے لئے کرائی تھی جس سے پارلیمانی جماعتوں کے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی کے فیصلے سے انحراف کے مجاز نہیں تھے لہٰذا سترھویں ترمیم کے ذریعے جب آئین بحال کیا گیا تو صدر مشرف نے نوازشریف کی غیر جمہوری ترمیم کو حذف کرا دیا تھا اور اس کے متبادل آئین کے آرٹیکل 63-Aشامل کرائی گئی تھی۔ جس کے ذریعے پارلیمانی لیڈر کے اختیارات محدود کر دئیے گئے اور اس آرٹیکل کے سہارے جولائی 2008ء میں پنجاب میں شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 46ارکان کی خدمات پارلیمانی لیڈر عطا محمد مانیکا کی وساطت سے حاصل کر کے پنجاب میں حکومت کرتے رہے اور چوہدری شجاعت حسین نے ان ارکان کے خلاف ریفرنس بھجوانے سے گریز کیا تھا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 63-Aکے مطابق ان کے خلاف نااہلی کا ریفرنس مسترد ہو جاتا۔ عائشہ گلالئی کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کو آزاد کر دیا ہے، وہ جس کے ساتھ چاہیں چلے جائیں اور پارٹی کے سربراہ کے خلاف تنقید بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے اس رکن کی رکنیت ختم نہیں ہو گی۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 9ارکان کے خلاف بھی اس طرز کا فیصلہ آنے والا ہے اور متحدہ کے ارکان کو اس فیصلے کی روشنی میں نااہل قرار نہیںدیا جاسکے گا۔پارلیمانی پارٹیوں میں افواہیں گردش میں رہی ہیں کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار ہیں لیکن پارٹی کی جانب سے کسی واضح اعلان کی غیر موجودگی میں ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پارٹی لیڈرشپ نے اس بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا ہے اور اب 70سے زائد پارلیمنٹ کے ارکان فلور کراسنگ کی راہ پر چلنے کے آرزومند ہیں اور انہوں نے ایسا کیا تو ان کے خلاف نااہلیت کا ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکے گا اور یہی افراد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دوبارہ اقتدار میں نہ آنے کا باعث بن جائیں گے۔ 
عمران خان نے الیکشن کمیشن سے توہین عدالت کیس میں تحریری اور زبانی معذرت کر لی ہے۔ جسے الیکشن کمیشن نے منظور کر لیا ہے اور یوں طویل عرصے سے جاری ناخوشگوار قضیہ بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ بہتر ہوتا اس معاملے کو اتنا طویل نہ دیا جاتا اور غلطی کا احساس دلائے جانے کے فوراً بعد اس پر معذرت کر لی جاتی کہ مہذب معاشروں کی یہی روایات ہیں۔ اب الیکشن کمیشن نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی معذرت قبول کر لی ہے اور معاملہ کو ختم کر دیا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ عمران خان کا یہ طرز عمل شروع ہی سے قابل گرفت تھا جسے اول تو اختیار ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا لیکن غلطی ہوگئی تھی تو کم از کم بعدمیں احساس دلائے جانے پر فوری طور پر غلطی تسلیم کر کے معذرت کر لینی چاہیے تھی تاکہ آئینی اداروں کے استحکام کی راہ ہموار ہو۔ اس کے پس منظر پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ 6نومبر 1996ء کو جب صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹوحکومت کو تحلیل کیا تو 10نومبر 1996ء کو نوازشریف نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار فخر عالم کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا تھا اور ان کے اس تضحیک آمیز مطالبہ پر چیف الیکشن کمشنر نے ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس بھجوا دیا تھا جس پر نوازشریف نے فوری طور پر تحریری طور پر الیکشن کمیشن سے معذرت کر لی تھی۔امید ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد آئین، قانون اور عدلیہ کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کو اپنی مستقل روش بنائیں گے اور اس بات کا پورا اہتمام کیا جائے گا آئندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں