"KDC" (space) message & send to 7575

نئی حلقہ بندیاں اور جغرافیائی حدود

آئین کی رُو سے موجودہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت آئندہ سال5جون کو ختم ہو رہی ہے جس کے بعد آئین کے آرٹیکل 234 کے مطابق الیکشن کمیشن ساٹھ دن میں ملک بھر میں نئے عام انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ جبکہ ملک میں اس سال ہونے والی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی آئین کے تحت لازمی ہیں۔ اسی بناء پر سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کئی ہفتوں سے الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار اس ضمن میں آئین میں ترمیم کا تقاضا کر رہے ہیںکہ الیکشن کمیشن کو مردم شماری کی عبوری رپورٹ پر نئی حلقہ بندیاں کرانے کیلئے قانونی اختیارات دئیے جائیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے گزشتہ روز تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس طلب کیا تھا اور یہ امر خوش آئند ہے کہ اس میں مردم شماری کے نتائج پر بعض جماعتوں کے تحفظات کے باوجود تمام پارلیمانی لیڈروں نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر اتفاق کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تاہم صوبوں کے لئے مختص نشستوں کی تعداد میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ ان فیصلوں کو قانونی شکل دینے کیلئے آئندہ ہفتے میں قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ میں مسودہ قانون منظوری کے لئے پیش کر دیا جائے گا۔ اجلاس کی جانب سے جس میں پارلیمانی قائدین کے علاوہ سیکرٹری الیکشن کمیشن ، چیئرمین نادرا اور محکمہ شماریات کے حکام بھی شریک تھے‘مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں قومی اسمبلی میں پنجاب کی نو نشستیں کم جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی بالترتیب ایک، پانچ اور تین نشستیں بڑھانے کا فیصلہ بھی متفقہ طور پر کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے مردم شماری کے نتائج پر متعلقہ جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ ان جماعتوں نے تحفظات دور نہ کئے جانے کی صورت میں عدالتوں سے رجوع کا حق محفوظ رکھا۔ لہٰذا مردم شماری کے نتائج پر ہر قسم کے شکوک و شبہات کے ازالے کو یقینی بنایا جانا ناگزیر ہے تاکہ اس کی وجہ سے انتخابی عمل کسی تاخیر کا شکار نہ ہو کیونکہ انتخابات وقت پر منعقد نہ ہوئے تو ملک میں آئینی اور انتخابی بحران پید اہو جاتا اور قومی مفادات بری طرح متاثر ہوتے۔ مردم شماری کے نتائج کی مکمل معلومات دستیاب ہونے کے بعد پہلا مرحلہ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا ہو گا پھر انتخا بی فہرستوں پر نظرثانی کی تیاری عمل میں آئے گی۔ دس کروڑ سے زائد ووٹروں کے لئے 25کروڑ کے لگ بھگ بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے اور تقریباً بارہ لاکھ کے قریب پولنگ کے عملے کا تقرر ہو گا اور ایک لاکھ پولنگ سٹیشن قائم کرنے کے لئے عمارتوں کا حصول بھی الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے آئینی تقاضے نومبر کے دوسرے ہفتے تک پورے نہ کئے گئے تو مقررہ مدت میں یہ کام مشکل ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے مؤثر ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ڈیڈلائن بھی مقرر کر دی ہے۔ حالانکہ اب نئی حلقہ بندیوں میں تکنیکی امور پر زیادہ وقت صرف نہیں ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے جون2002ء میں حلقہ بندیاں کرائی تھیں ان کو بنیادی ڈھانچہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے گا اور جغرافیائی حدود بھی برقرار رہنے کا احتمال ہے اور سابق حلقہ بندیوں کے بارے میں جو ابہام پیدا ہوا تھا اس کا ازالہ کر دیا جائے گا۔
ترقی یافتہ اور مستحکم جمہوریتوں میں انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن ملک کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی الیکشن سے قبل عبوری حکومت کے دوران ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی الیکشن کمیشن کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتی اور اس سے مکمل تعاون کرتی ہے اور بھارت میں حلقہ بندی کمیشن سارا سال ضرورت کے مطابق حلقہ بندی کرتا رہتا ہے اور یہ آزاد اور خودمختار ادارہ ہے جو الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ قابل اعتماد اور شفاف انتخابات کے لئے موجودہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں رولز بنانے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کر دئیے گئے ہیں اور پارلیمنٹ بھی الیکشن کمیشن کی پشت پر ہے اور ایسا انتخابی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ تحریک انصاف نے بھی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اب الیکشن کمیشن پر تنقید نہ کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی اور بے قاعدگیوں کا جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشن کی جانب سے تحقیقات میں انتخابی قوانین کے ایسے بہت سے پہلو سامنے آئے تھے جو بے قاعدگیوں کا سبب بنتے ہیں۔ انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور قابل اعتماد بنانے کے لئے ایسے تمام پہلوئوں کی اصلاح لازمی ہے کیونکہ یہ آئندہ انتخابات اور مستحکم جمہوریت کے لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نوازشریف ''نظریاتی‘‘ شخصیت کے روپ میں پاکستان کو فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف لے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اس مہم میں پراسرار شخصیات جن میں میڈیا کے چند طاقتور اینکر پرسنز بھی شامل ہیں ‘ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ بادی النظر میں ملکی سیاسی افق پر 2018ء کے انتخابات کے امکانات و آثار روشن نظر آرہے ہیں بشرطیکہ نوازشریف کی طرف سے کوئی ناگہانی مہم جوئی نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ قیمتی وقت انتخابی اصلاحات کی تیاری اور منظوری میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے ضائع کیا۔ قانون سازی کی جگہ محاذ آرائی کی گئی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست آئندہ انتخابات کی شفافیت پر فوکس رہے۔ سیاسی جماعتیں منشور پر مبنی اجتماعات میں عوام کے مسائل کا ازالہ کرنے کے ٹھوس وعدے کریں جس میں قوم ایک نئے سیاسی شعور کی نشاۃ ثانیہ کا عکس دیکھے۔ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا طبل جنگ بجنے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہو گئی ہیں۔
کلثوم نواز کی علالت کے باعث بیرون ملک موجودگی سے حلف میں تاخیر کے باعث حلقہ این اے 120کے عوام نمائندگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ انتخاب کو ڈیڑھ ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 271کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد 21دنوں میں حلف اٹھانا ضروری ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے120میں انتخاب 17ستمبر کو کرائے گئے تھے جس پر کلثوم نواز کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا لیکن ابھی تک حلف نہیں اٹھایا گیا۔ الیکشن کمیشن کا کام انتخاب کرانا ہے جو آئین کے مطابق کرا دئیے گئے اور نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد حلف کی ذمہ داری سپیکر قومی اسمبلی کی ہے۔ کلثوم نواز علیل اور ملک سے باہر ہیں۔ اگر کلثوم نواز نے سپیکر قومی اسمبلی کو علالت کا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہو گا تو حلف میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو کلثوم نواز کی علالت کا علم تھا اور کاغذات نامزدگی کے مرحلے پر کلثوم نواز لندن سدھار گئی تھی اور ان کو کینسر کا مرض لاحق تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے کلثوم نواز کو الیکشن میں نامزد کر کے عوام اور ووٹرز کو فریب میں رکھا۔ مسلم لیگ(ن) کی ہائی کمان کو چاہیے تھا کہ انتخاب میں کسی متبادل شخص کو سامنے لاتے جو صحیح معنوں میں حلقہ کے عوام کی نمائندگی کرتا۔
پشاور کے قومی اسمبلی کے حلقہ چارکے الیکشن نتائج سامنے آنے کے بعد این اے چار کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) سمیت تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی ہے۔ اس میں تحریک انصاف نے 45631، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 24790، عوامی نیشنل پارٹی نے 24830 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 13000 ووٹ حاصل کئے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 61کے مطابق کم ووٹ لینے والے بعض امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو چکی ہے کیونکہ امیدواروں کو الیکشن قوانین کے تحت حاصل کردہ رجسٹرڈ ووٹوں میں سے ایک چوتھائی ووٹ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 61کے تحت امیدواروں کو کم سے کم تیس ہزار ووٹ حاصل کرنے چاہیے تھے۔ لہٰذا پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی ہے۔ پشاور کے حلقہ چار کے نتائج ہارنے والے امیدواروں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) ، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ضمانتیں بھی بچانے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی حالانکہ مسلم لیگ (ن) کو مولانا فضل الرحمن اور آفتاب شیر پائو کی حمایت بھی حاصل تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں