"KDC" (space) message & send to 7575

بازپرس کی جائے!

نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لئے قانون سازی اور آئینی ترمیم کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات‘ جن کے محرک وفاقی وزیر قانون زاہد حامد دکھائی دیتے ہیں‘ کے باعث تعطل میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی باعث آئندہ عام انتخابات کے بروقت منعقد نہ ہونے کے خدشات بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خدشات میں واضح کر دیا گیا ہے کہ انتخابات کے التوا کے نتائج و مضمرات ملک کو درپیش سنگین اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے باعث انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ امریکا، بھارت اور بعض دوسرے ممالک اس صورتحال سے فوائد حاصل کرنے کے لئے وہی گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں جیسا کہ ان طاقتوں نے 1970ء کے اوائل میں پاکستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس وقت نواز شریف طاقتور اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی پر گامزن ہیں اور وہ خود اور ان کے ساتھی‘ گزشتہ چند مہینوں سے نہایت بے ربط اور فہم سے بے بہرہ باتیں مسلسل کر رہے ہیں۔ انتخابات میں تاخیر، دھاندلیوں یا انتخابی نتائج تسلیم نہ کئے جانے کے نتیجے میں یہ قوم جن ہولناک المیوں سے دو چار ہو چکی ہے، وہ ہماری قومی تاریخ کے اوراق پر جا بجا بحیثیت نمونہ عبرت‘ ثبت ہیں اور ان میں اہل بصیرت کے لئے یقینا بڑا سبق ہے۔ 10 نومبر سے پہلے متعلقہ قانون سازی کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تقاضے بالکل قابل فہم ہیں۔ آئین کی رو سے نئی مردم شماری کے بعد اس کی بنیاد پر انتخابی حلقہ بندیوں کا ازسرنو تعین لازم ہے۔ اور یہ کام آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کو نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے تعین، نئی انتخابی فہرستوں کی تیاری اور دیگر امور کے لئے معقول وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد کئی ماہ سے مسلسل حکومت کو آگاہ کر رہے تھے کہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا فیصلہ‘ اور اس مقصد کے لئے آئینی ترمیم اس طرح کی جائے کہ الیکشن کمیشن کو آئندہ عام انتخابات کی تیاری کے لئے کم از کم آٹھ ماہ کی مہلت مل سکے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ شماریات ڈویژن نے مردم شماری کے انعقاد کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مردم شماری کی فائنل رپورٹ بروقت شائع کر دی جائے گی اور حلقہ بندیاں مؤخر نہیں ہوں گی۔ اسی یقین دہانی پر سپریم کورٹ نے 15مارچ 2017ء سے مردم شماری کرانے کا حکم جاری کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دئیے کہ حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کرانا مذاق ہو گا۔ لہٰذا شماریات ڈویژن سے باز پرس کی جانی چاہئے کہ انہوں نے کس کے اشارے پر مردم شماری کے حتمی نتائج اپریل 2018ء کے آخر میں شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں‘ تازہ مردم شماری کی روشنی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے معاملے میں متفقہ فیصلہ قومی سطح پر گہری طمانیت کا باعث بنا لیکن اس اتفاق رائے کے دو دن بعد ہی جب قومی اسمبلی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لئے مسودۂ قانون پیش کیا گیا تو غیر متوقع طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اس بل کے حق میں رائے دینے کے بجائے اس کی مخالفت کی۔ اس کے اسباب میڈیا کے توسط سے قوم کے سامنے آچکے ہیں لیکن ناقابل فہم بات یہ ہے کہ یہ اسباب تو پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس کے وقت بھی موجود تھے، اگر تب بروقت انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے کو ضروری سمجھا تھا تو اب یہ جماعتیں انتخابات کو ملتوی کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے قانون سازی کی حمایت سے قطعی انکار کر دیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی اسی مؤقف پر ڈٹ گئی ہے۔ اب اس پس منظر میں یہ اندیشہ یقینا بے بنیاد نہیں کہ انتخابات کسی بھی وجہ سے ملتوی ہوئے تو ان کا انعقاد نگران حکومت کی صورت میں غیر معینہ مدت تک ٹل سکتا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ کا مسلسل یہ شکوہ کہ ''ملک میں مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرنے کے لئے خفیہ ہاتھ حرکت میں ہیں‘‘ نامناسب ہے۔ وفاق اور تین صوبوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں احسن طریقے سے اپنے آئینی اور قانونی فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ تمام ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں تو اس صورت میں احسن اقبال اپنی ہی وفاقی حکومت پر عدم اعتماد کر رہے ہیں۔ ان کی منطق سے فیڈریشن کمزور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لہٰذا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمران جماعت کو چاہئے کہ انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنانے کے لئے انتخابی حلقہ بندیوں پر مفاہمت سے لے کر اختلافات کے فوری حل تک تمام راستے تلاش کرے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی بے یقینی کی صورتحال میں قیاس آرائیوں کا جو سلسلہ جاری ہے وہ فطری ہے کیونکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور روایتی سیاست دانوں کا مستقبل میں کوئی کردار نظر نہیں آ رہا۔ سیاست کا نیا رخ متعین کرنے اور نئی سیاسی قیادت پیدا کرنے کے لئے طویل مدتی نگران حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ آئین میں اس کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود کسی آئینی درخواست پر عدالت کے فیصلے سے یہ گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔
سعودی عرب میں اصلاحات کا جو عمل شروع ہوا ہے اس سے نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد پر گہرا اثر پڑنے کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ شاہ سلمان نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف بڑا اقدام کیا ہے۔ کرپشن کے الزام میں موجودہ اور سابق وزراء سمیت کئی شہزادوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ نئے سعودی عرب کی تعمیر کے لئے یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ سعودی عرب کے علماء کا بیان بھی آیا ہے کہ کرپشن سے لڑنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرپشن اتنا ہی بڑا قومی جرم ہے جتنا کہ دہشت گردی۔ یہی ماٹو جنرل راحیل شریف کا بھی رہا لیکن بدقسمتی سے ان کے ماٹو کو نواز شریف حکومت نے نظر انداز کر دیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سعودی عرب میں خوش آئند اصلاحات کی پیروی کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف ریفرنس اپنی نگرانی میں تیار کروا کے قومی احتساب بیورو میں بھجوانے چاہئیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کی چلتی پھرتی شبیہ دینا واڈیا گزشتہ دنوں 98سال کی عمر میں امریکی شہر نیویارک میں انتقال کر گئیں۔ قائد سے محبت کرنے والا ہر پاکستانی ان کے انتقال پر دلی صدمہ محسوس کر رہا ہے۔ دینا قائداعظم اور ان کی اہلیہ مریم (رتن بائی) کی واحد اولاد اور بہت ہی لاڈلی صاحبزادی تھیں۔ 15اگست 1919ء کو پیدا ہوئیں اور رتن بائی کے انتقال کے باعث ان کی پرورش قائداعظم کی ذمہ داری بن گئی۔ انہوں نے دیناکو نہایت ناز و نعم سے پالا۔ قائداعظم کو اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی لیکن اس والہانہ تعلق میں اس وقت دراڑ پڑ گئی جب دینا نے قائداعظم کی خواہش کے خلاف‘ 17سال کی ناپختہ عمر میں ایک نوجوان پارسی نیوائل واڈیا سے شادی کر لی اورشادی کے بعد وہ قائد کے لئے بیٹی کی بجائے مسز واڈیا بن کر رہ گئیں۔ تاہم قائداعظم دینا کی جانب سے کبھی غافل نہ رہے۔ انہوں نے بمبئی کی جناح مینشن فاطمہ جناح کے نام کی تو دینا کے لئے بینک میں نہایت معقول رقم جمع کرا دی جس کے ذریعے ان کو تاحیات تقریباً دو لاکھ روپے کی آمدن ہوتی رہی۔ دراصل قائداعظم اور فاطمہ جناح کے تحریک پاکستان میں مصروف ہونے کے باعث دینا اپنی نانی لیڈی پٹیٹ کے پاس چلی جایا کرتی تھیں، اسی لئے نانی کا نواسی پر گہرا اثر ہوا۔ نانی کی سوشل لائف میں دینا‘ نوائل واڈیا کی محبت کی اسیر ہو گئیں جو ایک پیدائشی رئیس پارسی تھا۔ بعد ازاں اس نے عیسائیت قبول کر لی۔ لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ شادی کے صرف چار سال کے بعد 1943ء میں دینا کی اپنے خاوند سے علیحدگی ہو گئی۔ آزادی کے بعد دینا دو مرتبہ پاکستان آئیں۔ پہلی بار 11ستمبر 1948ء کو قائداعظم کی رحلت پر اور دوسری بار صدر پرویز مشرف کی دعوت پر۔ انہوں نے قائداعظم کے مقبرے پر بھی حاضری دی اور مہمانوں کی کتاب میں لکھا کہ میرے لئے یہ بڑا اداس لمحہ ہے۔ خدا پاکستان کے بارے میں جناح کے خواب کو پورا کرے۔ دینا شکل و صورت میں ہوبہو اپنے عظیم باپ کی شبیہ تھیں۔ ان کی وفات سے قائداعظم کی یہ زندہ شبیہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اپنے پارسی شوہر سے طلاق کے کچھ عرصے بعد وہ بمبئی سے نیویارک منتقل ہو گئیں۔ ان کے لواحقین میں ایک بیٹا، ایک بیٹی اور دو پوتے شامل ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان کی آخری رسومات کے حوالہ سے اس دن پاکستان کا قومی جھنڈا سرنگوں کرنا چاہیے تھا۔ یہ علامتی سوگ بھی ہوتا اور قائداعظم کی لاڈلی بیٹی کے لئے خراج عقیدت کا اظہار بھی ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں