"KDC" (space) message & send to 7575

بحران کا حل کیا ہے؟…(1)

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان دو دفعہ اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں‘ اور بدقسمتی سے چند دوست ممالک بھی ہمارے ملک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات 1971ء کے دور سے بدتر ہیں‘ جبکہ کچھ لوگ ایک بار پھر نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا‘ سیاسی جماعتیں قومی مکالمے میں جائیں۔ ان کی رائے میں اس حد تک تو وزن ہے کہ سیاسی جماعتیں قومی مکالمے میں جائیں‘ لیکن ان کا یہ مؤقف حقائق کے برعکس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مارشل لاء روکنے والی اٹھارہویں ترمیم کے حقوق چھننا چاہتی ہے۔ ایسا بادی النظر میں ناممکن ہے۔ اگر زمینی حقائق کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس وقت کے فل کورٹ نے اس کا جائزہ لیا تھا‘ اور فیصلہ بھی کافی عرصہ تک محفوظ رکھنے کے بعد غالباً دسمبر 2013ء میں سنایا تھا۔ اگر فل کورٹ کے ریمارکس کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظر آ رہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو آئینی ترامیم پر تحفظات تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں فیصلہ سناتے سناتے رہ گئے۔ بروقت فیصلہ آ جاتا تو اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں اگر کوئی ابہام تھابھی تو وہ ختم ہو جاتا۔
دوسری طرف بلوچستان کی علیحدگی کے لئے کچھ گروپ صوبے کے اندر سرگرم ہیں اور کچھ بیرون ممالک عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے جھوٹ، منافقت‘ بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈے سے کام لے رہے ہیں۔ کچھ مقامی وڈیروں کا علیحدگی کا دیرینہ خواب ہے۔ ان عسکریت پسندوں کو پاکستان دشمن اپنے مکروہ مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بھارت ان میں سرفہرست ہے۔ اس کی طرف سے کشمیر کا انتقام بلوچستان میں لینے کے دعوے اور اعلانات اس کے بلوچستان میں مداخلت کا واضح ثبوت اور اعتراف ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول برملا ایسے بیانات دے چکے ہیں‘ جو پاکستان کے خلاف جاتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں میں اپنے خبث باطن کو خفیہ رکھنے کا تکلف بھی نہیں کرتا۔ اس کی پاکستان کے خلاف سرگرمیاں علی الاعلان ہیں۔ اس کے افغانستان میں 18 کے لگ بھگ قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ بعید از قیاس نہیں کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں چوکیوں پر جو حملے کئے جا رہے ہیں‘ ان کے پیچھے بھی بھارت کا ہی ہاتھ ہو۔ میرے خیال میں دہشت گردوں اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی افغانستان میں بھارت کی زیر نگرانی تربیت ہوتی ہے‘ اور اسی کی جانب سے انہیں اسلحہ و بھاری رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے ثبوت امریکہ اور اقوامِ متحدہ کو وفاقی حکومت دستاویزات کی صورت میں پیش کر چکی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کے بارے میں بھی بھارتی حکومت سے کئی بار احتجاج کیا جا چکا ہے۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کی توجہ بلوچستان میں بھارتی ایجنسیوں کی مداخلت کی طرف مبذول کرائی تھی۔ علاوہ ازیں گزشتہ برس بلوچستان سے ہی بھاری خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا تھا‘ جو وہاں تخریب کاری کی تیاریاں کر رہا ہے اور دہشت گردی بڑھانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے پیش کردہ تمام تر دستاویزات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے تھنک ٹینک کے ذریعے بلوچستان کی نام نہاد آزادی کے لئے آواز اٹھا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ علیحدگی پسند صوبہ بلوچستان سے ملحق ایرانی علاقے کو ملا کر گریٹر بلوچستان کی تخلیق چاہتے ہیں۔ ایران نے ان کے عزائم سخت اقدامات کے ذریعے خاک میں ملا دئیے۔ ان لوگوں کی 1947ء اور 1973ء میں برپا کی گئی شورش کو فوجی کارروائی کے ذریعے ختم کر دیاگیا تھا۔ حال ہی میں پاک فوج نے وہاں امن قائم کرنے کے سلسلے میں انتھک کام کیا۔ اب وہاں سے اگر علیحدگی کی آواز اٹھتی بھی ہے تو اس کی حیثیت صدا بصحرا سے زیادہ نہیں ہوتی۔ مگر پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی‘ یعنی اتنی کمی نہیں آئی‘ جتنی توقع کی جا رہی تھی۔ حکومت‘ اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف برسر پیکار ادارے صوبے میں امن کے قیام کے دعوے کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں عسکریت پسندوں نے میڈیا کو خوف زدہ کرنے کے لئے دھمکیاں دیں‘ اور اخبارات اور جرائد کی اشاعت روکنے کا کہا۔ اسے حکومت نے دھمکی برائے دھمکی کے طور پر لیا مگر شدت پسندوں کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ اخبارات کو دھمکیاں آسمان سے نہیں آئی تھیں۔ شہروں میں موجود دہشت گردوں نے دی تھیں۔ لندن میں ٹیکسیوں پر درج فری بلوچستان کے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے پاکستان کی جغرافیائی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف درج نعرے نشر کرنے پر وزارت خارجہ نے برطانوی حکومت سے شدید احتجاج کیا‘ اور اسے ملک کی سالمیت و خود مختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس قسم کی مہم چند ہفتے قبل جنیوا میں بھی چلائی جا چکی ہے‘ جس پر پاکستان نے سوئٹزرلینڈ سے شدید احتجاج کیا تھا۔ بیرون ملک بیٹھ کر کوئی جلا وطن حکومت بنا رہا ہے کوئی اشتہار بازی کر رہا ہے اور کوئی پمفلٹ گرا رہا ہے۔ اس پر محض رسمی بیان بازی اور سفارت خانوں سے احتجاج ہی کافی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جنیوا میں ستمبر کے وسط میں بلوچستان کی علیحدگی کے اشتہارات لگے تو اس پر رسمی احتجاج کیا گیا۔ بھارت میں کوئی بلوچ پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے کئی نام نہاد لیڈر بھارت میں موجود ہیں اور پاکستان کی سلامتی و خود مختاری پر حملہ آور ہیں۔ مگر پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس پر بھرپور احتجاج نہیں کیا جاتا جس سے حوصلہ پاکر یہ لوگ ملک ملک گھوم رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ پاکستان کے مفاد کے برعکس غیر ملکی مفادات کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے مؤقف سے بھارت فوائد حاصل کر رہا ہے۔
ارباب اختیار ہمہ وقت چوکس رہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنے مفادات کے لئے پاکستان پر عقابی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ ٹلرسن 20 دہشت گرد تنظیموں کی فہرست حکومت پاکستان کو تھما چکا ہے۔ وہ پاکستان کو آخری موقع دینے اور ساتھ نہ دینے پر یک طرفہ کارروائی کا انتباہ بھی کر چکا ہے۔ ادھر شرق اوسط میں شعلے بلند ہو رہے ہیں اور وہاں بھی حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ملکی صورتحال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ اہم ایشو پر قومی اتفاق رائے کے لئے داخلی فقدان سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو پاکستان کی طرف سے خطے میں امن کا مثبت پیغام جائے‘ اور امریکہ سمیت دنیا کو یقین آ جائے کہ افغانستان میں بھارت کی بدنیتی کی اصل خرابی ہے۔ جب کہ پاکستان کا مؤقف منطقی، جائز، قابل غور اور لائق اعتبار ہے۔ امریکہ خود سفارتی سطح پر تجرباتی پبلک ڈپلومیسی میں سافٹ پاور کی نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ جس کا مقصد امریکی دانشور اور تھنک ٹینک یہ بتاتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں خطرات اور مواقع امریکی اقتصادی انجن کو بے سمت کر چکے ہیں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے پاکستان خطے کی جدلیات کا نتیجہ خیز اور مؤثر حل پیش کرے۔ ان حالات میں پاکستان کی بااثر شخصیات کو‘ جو پاکستان کے آئین کی رو سے سیاسی جماعتوں کی تشکیل کرنا چاہتی ہیں‘ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے ان کے لئے لچکدار اور حقیقت پسندانہ پالیسی اپنانا ہو گی۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں