"KDC" (space) message & send to 7575

بحران کا حل کیا ہے؟… (2)

اسی تناظر میں ملکی اور غیرملکی الیکٹرانک میڈیا کے کچھ حصے پاکستان کی نظریاتی‘ سیاسی پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی رجسٹریشن کے بارے میں جو منطق پیش کرتے رہے‘ وہ ہمارے آئین سے مطابقت نہیں رکھتی۔ میرا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے اور اب بھی ہے کہ اگر کوئی آئین کی روح کے مطابق اور آئین کے آرٹیکل 2-A‘ جو قرارداد مقاصد کا عکس ہے‘ کے مطابق سیاسی جماعت کی تشکیل کرتا ہے‘ تو ایسی سول سوسائٹی کے ان حصوں‘ جو کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں‘ کے دبائو کے تحت وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مشاورت پر مبنی ریفرنس بھجوانے کی مجاز نہیں‘ اور ایسی سیاسی پارٹی کے قیام کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے مجوزہ قانون کو ہی دیکھنا ہوتا ہے‘ اور وہ اسی تناظر میں اس معاملے کو لیتا ہے۔ اگر کوئی پارٹی پاکستان کے آئین سے انحراف کرتے ہوئے عسکری ونگ کی تشکیل دیتی ہے یا غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں تو اس کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 205‘ 212 اور 213 کے تحت کارروائی کرنے کے اختیارات وفاقی حکومت کو حاصل ہیں اور وفاقی حکومت کے لئے ایسی پارٹی کو کالعدم قرار دے کر بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپنے فیصلے کی توثیق کرانا آئینی تقاضا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے بے حد ہمدردانہ پالیسی کو مدِنظر رکھا اور اس طرح تقریباً ساڑھے تین سو ایسی سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کر دی جو متعلقہ کوائف پر پورا نہیں اتری تھیں؛ تاہم واضح رہے کہ یہ صرف ہمدردانہ بنیاد پر کیا گیا‘ کسی اور وجہ سے نہیں۔ پھر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ رجسٹریشن کی اجازت نہیں بھی دی گئی۔ جیسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جولائی 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق) کی رجسٹریشن کی منظوری اس بنا پر نہیں دی تھی کہ نام کی مماثلت کی وجہ سے ابہام پیدا ہونے کے خدشات موجود تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف مسٹر اعجازالحق نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں اپیل دائر کر دی تھی‘ جس کا چند گھنٹوں میں ان کے حق میں فیصلہ آیا اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سرزنش بھی کی گئی اور اسی سرزنش کے کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مسرت شاہین کی مساوات پارٹی کی بھی رجسٹریشن کرنا پڑی جو قواعد و ضوابط اور پارٹی بننے کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ اسی طرح 2009ء میں عوامی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کے سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا تذبذب کا شکار تھے۔ اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں اس دور میں مجھے بتایا تھا کہ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ عوامی مسلم لیگ کی پشت پر جنرل پرویز مشرف کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے ان کا یہ شک رفع کر دیا تھا۔ بعض اہم شخصیات نے اس پارٹی کی رجسٹریشن نہ کرنے پر زور دیا تھا لیکن میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین و قانون کے حوالوں سے باور کرایا کہ رجسٹریشن کرنے میں کسی قسم کی قانونی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ 
میرے خیال میں اگر کوئی پارٹی پاکستان کے آئین سے انحراف کرتے ہوئے عسکری ونگ کی تشکیل دیتی ہے یا غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں تو ان کے خلاف پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 16-15 کے تحت کارروائی کرنے کے اختیارات وفاقی حکومت کو حاصل ہیں اور ایسی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان سے توثیق کرانا آئینی تقاضا ہے۔ اسی طرح جب سابق صدر پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کی رجسٹریشن کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دستاویزات بھجوائیں تو ان کی پارٹی کی رجسٹریشن میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے کسی ایوان سے فون آتے رہے۔ میں نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس حامد علی مرزا کو اعجازالحق کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ہائی کورٹ ان کی رجسٹریشن کے آرڈر جاری کرتے وقت اعجازالحق کی پٹیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے رجسٹریشن کے احکامات جاری کر دے گی۔
میں نے اپنے آئینی، قانونی اور الیکشن کے تجربات کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مؤقف کی ہی تائید کی ہے۔ میری ناقص رائے یہی رہی ہے کہ ماضی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی حکومت کی کسی وزارت سے پارٹی کی رجسٹریشن کرتے ہوئے مشاورت نہیں کی۔ اسی پس منظر میں مدنیہ یونیورسٹی کے میڈیا کمیونیکیشن شعبے‘ جس کے تحت اسلامی ٹیلی وژن چینلز بھی تبلیغ کر رہے ہیں‘ نے کچھ انٹرویو کئے اور انٹرویو دینے والوں کا مؤقف بھی یہی تھا کہ جب پاکستان میں سیاسی نظام کے تحت پارٹیاں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں‘ تو ایسی جماعتیں جو بین الاقوامی مسلمہ حقیقت کے تحت جمہوری انداز میں آگے آنا چاہتی ہیں‘ ایسی سیاسی تنظیموں کو آگے بڑھنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ مصطفی کمال نے ترکی کے حالات کو سنبھالا تو وہ متحدہ ہندوستان کے عوام کے آئیڈیل بن گئے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مصطفی کمال کے حالات زندگی پر کتابیں بہت غور سے پڑھیں۔ پاکستان کے عوام کے آئیڈیل قائد اعظم ہیں اور انہی کی بات ہمارے لئے معتبر اور مشعل راہ ہونی چاہئے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آزادی کے بعد کی اپنی مختصر سی زندگی میں قائد اعظم نے تقریباً سبھی شعبہ ہائے زندگی میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ مختلف مواقع پر کی گئی ان کی تقریریں اور فرمودات پر عمل کرنے سے ہمارے لئے بطور ایک قوم ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ ان کی آئین ساز اسمبلی کے خطاب کو رواداری کے اظہار کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ میرے ذاتی خیال میں اس سے ہمیں جاری بحران کا حل مل سکتا ہے اور ہمیں آگے بڑھنے کی راہ بھی مل سکتی ہے۔ اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے اور توجہ دینے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
خطے میں ہر طرف تیز رفتار تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔ افغانستان اور ایران کو ایک طرف رکھئے۔ بحران تو لبنان تک آن پہنچا ہے۔ برادر عرب ملک میں کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ ہمارے ملک میں ان تبدیلیوں کے دور رس اثرات مرتب نہ ہوں۔ خواجہ آصف حقائق کے برعکس اعلامیہ جاری کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں اب منظم دہشت گردی کا کوئی نشان باقی نہیں۔ وزیر خارجہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور اس کی پشت پر غیر ملکی سرمایہ کار سہولت کار بنے ہوئے تھے۔ اب اگلے سال پھر انتخابات ہونے والے ہیں تو میری سوچ یہ ہے کہ انتخابی عمل پر گہری نظر رکھی جائے تاکہ یہاں وہ حکمران بنیں‘ جو عالمی نہیں بلکہ قومی بہبود اور ترقی کا ایجنڈا رکھتے ہوں۔ اس ملک کو حقیقی ترقی سے روشناس کرانے اور جاری معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ عوامی نمائندے عوام کے منتخب کردہ ہوں ‘ کسی اور قوت کے نہیں۔ 
الیکشن ایکٹ 2017ء میں تحفظ ختم نبوت شق میں مجرمانہ کوتاہی کے ذمہ دار پارلیمنٹ اور سینیٹ ہے کیونکہ قانون میں ترمیم کوئی ایک فرد نہیں کرتا اور خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ قانون تحفظ ختم نبوت کو مکمل طور پر پہلی حالت میں تاحال بحال نہیں کیا گیا ہے۔ سیکولر ذہن رکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یورپی ممالک میں کوئی بھی قانون بناتے وقت اس کے ایک ایک پہلو پر غور کیا جاتا ہے اور ماہرین سے رائے لی جاتی ہے۔ مگر مبینہ طور پر انتخابی اصلاحات کے چیئرمین نے غیر ملکی امداد حاصل کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی رائے کو مقدم جانا اور میرے خیال میں وہ غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور مالی استفادہ حاصل کرنے کے لئے شق کو حذف کرانے کی سازش کا حصہ بن گئے۔(ختم)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں