"KDC" (space) message & send to 7575

آئینی بحران کے امکانات

سیاسی استحکام، اقتصادی قوت اور منصفانہ نظام اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ایک واضح نظریہ سامنے نہ ہو اور منزل کی سمت کا تعین اور مقصد سے لگن عنقا ہو۔ اس کے ساتھ وژن کی حامل سیاسی شخصیات، جامع منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے لئے پرخلوص کوششیں لازم ہیں۔ محض پارلیمنٹ میں یا صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مقصد کے ساتھ اخلاص اور قوم کی حقیقی ترجمانی درکار ہوتی ہے۔ نوازشریف اپنے دور میں عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی خداداد صلاحیت سے بہرہ مند رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے وزراء کے بجائے سرکاری آفیسروں پر اعتماد کرتے رہے کیونکہ نوازشریف سمجھتے تھے کہ ان کی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ دراصل یہ ہمارے پارلیمانی نظام کا شاخسانہ ہے کہ اس میں وزیراعظم محض سیاسی وابستگی رکھنے والے پارلیمنٹ میں سے براہ راست وزراء کی تقرری کرتا ہے اور امور مملکت چلانے کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل نہیں کی جاتیں۔ اسی پس منظر میں علاقائی اور عالمی حالات میں بھی پاکستان کے لئے مستقبل قریب میں بہت سے مسائل دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض عالمی قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے اپنے مخصوص ایجنڈوں کو بہت حد تک ظاہر کر چکی ہیں۔ ان قوتوں نے نواز شریف کو باور کرا دیا ہے کہ قانونی راستے کی بجائے سیاسی راستہ زیادہ کھلا ہوا نظر آتا ہے۔ اب یہ نوازشریف کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے۔ ایک امکان تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات تک عدالتی معاملات کو کسی طرح طول دے دیں اور عام انتخابات میں دوبارہ مینڈیٹ لیکر آجائیں اس طرح حالات ان کے حق میں ہو جائیں گے، بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ عمران خان نے طوفانی انداز میں انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے اور عوام کا جم غفیر ان کے حق میں جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دوسرا امکان نوازشریف کے لئے یہ ہے کہ وہ ابھی سے آئندہ عام انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے خدشات سے دوچار ہوں اور انتخابات سے پہلے ہی حالات کو اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہ کوشش تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ 
عام انتخابات کے قریب آنے کے باعث ملک میں سیاسی محاذ پر فطری گہما گہمی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کی کوششوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ اس نوعیت کا ایک بڑا مظاہرہ رواں ہفتے کے دوران کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے سیاسی اتحاد کے اعلان اور اگلے ہی دن اس کی ناکامی کی صورت میں ہوا۔ جب کہ چند روز پیشتر ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کی سربراہی میں پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے 23سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے قیام کی خبر منظر عام پر آئی جن میں سے بیشتر کسی قابل لحاظ عوامی حمایت کی حامل نہیں بلکہ ان میں سے اکثر کے نام سے بھی پاکستان کے عوام ناواقف ہیں۔ تاہم متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پر ہر صورت منتخب اداروں میں نمائندگی کے اعتبار سے سندھ کی دوسری اور ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے اور سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ بینک آج بھی اس کے پاس ہے۔ بلاشبہ موجودہ حالات میں فاروق ستار اور مصطفی کمال کو قومی سیاست کرتے ہوئے انتخابی اتحاد کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے اس سیاسی عمل میں مثبت نتائج نکلنے کے امکانات موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی طاقتور حلقے اور میڈیا کے مخصوص گروپ سیاسی عمل کو مصنوعی طریقوں سے اپنی مرضی کے تابع رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
ان حالات میں سندھ کے دونوں ممتاز رہنماخاموشی سے سندھ کے مظلوم عوام کیلئے تعمیری انداز میں منصوبہ بندی کریں۔ ہر لمحہ ٹیلی ویژن کے شوز میں نمودار ہونے سے وہ اپنی جامع حکمت عملی بنانے میں ناکام نظر آرہے ہیں اور شکوہ اور جواب شکوہ کے چکرمیں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں ۔ لہٰذا ایسی ہر کوشش سے اجتناب اور حقیقی سیاسی عمل کو آگے بڑھنے کا موقع دینا قومی مفاد کا اصل تقاضا ہے۔ سیاسی اداروں میں اختلاف ہونا فطری بات ہے لیکن انہیں افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے اور قومی انتشار کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ اسی پس منظر میں ڈاکٹر فاروق ستار کی سیاست نئے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل کے اہم اجلاس میں آئندہ الیکشن کی شفافیت اورحلقہ بندیوں کے بارے میں اہم فیصلے کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل (5)51میں ترمیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ اس کونسل میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کے مفادات کو نظر انداز کر دیا اور قومی اسمبلی کی کم سے کم تین نشستوں کے حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں پنجاب کی 9نشستوں کی کمی کے بعد بلوچستان، صوبہ خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کی نشستیں کم کر دی گئیں۔ لیکن سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے صوبے کے حقوق کے بارے میں چشم پوشی کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ اصولی طور پر سندھ وفاق کا ایک اہم یونٹ ہے تو پنجاب کی سیٹوں میں سے اس کو بھی مناسب حصہ دینا چاہیے تھا۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے صوبے کے عوام کے انتخابی حصہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں اجاگر نہیں کیا۔ اصولی طور پر کراچی، حیدرآباد اور سکھر کو ایک ایک نشست کا اضافہ کرنا ضروری تھا۔ اس نقطہ نظر سے سندھ کو قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کے موقع پر سندھ کے عوام کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یوں نظر آتا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے عوام کی نشستوں میں اضافہ کرنے کے بارے میں اس لئے خاموشی اختیار کی کہ اس سے اردو بولنے والوں کو فائدے پہنچنے کے امکانات تھے۔
تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی اسمبلی، مثال کے طور پر خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے میں فائدے سے زیادہ خطرات زیادہ ہیں۔ جس کا مقصد یہ ہو کہ نصف سینیٹ کے انتخابات روک کر حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کو ایوان بالا میں اکثریت سے محروم کر کے آئینی بحران کھڑا کیا جائے۔ یہ قیاس آرائیاں زور و شور سے جاری ہیں کہ تحریک انصاف آئندہ ہدف پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اس کے سسٹم پر قاری ضرب لگانا ہے۔ اس وقت ایوان بالا سینیٹ میں تحریک انصاف کے سات ارکان ہیں۔ مارچ 2018ء میں خیبرپختونخوا اسمبلی برقرار رکھنے کا تحریک انصاف کو یہ بڑا فائدہ حاصل ہو گا کہ تحریک انصاف آئندہ مدت کے لئے اپنے مزید 5سے 6تک سینیٹرز منتخب کرا سکے گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے حکمران اتحاد کو 70ارکان کی حمایت حاصل ہے جس میں 61ارکان کا تعلق تحریک انصاف اور 7کا جماعت اسلامی سے ہے۔ 2ارکان آزاد ہیں۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے صوبائی اسمبلی تحلیل کئے جانے کے اقدام کو محسوس کرنے کے بعد اپوزیشن یقینا ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے گی۔ سینیٹ انتخابات کے لئے سینیٹ رولز کے اعتبار سے دو ہفتوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسمبلی کو جنوری 2018ء کے آخری ہفتے میں تحلیل کر دیتے ہیں تو ایک صوبائی اسمبلی تحلیل کئے جانے کی صورت میں سینیٹ انتخابات پھر ملتوی کرنے ہوں گے کیونکہ نصف سینیٹ کے لئے انتخابات بیک وقت ہونا آئینی تقاضا ہے تاکہ وفاقی اکائیوں کی اس ایوان میں مساوی نمائندگی موجود ہو۔ بعض آئینی ماہرین اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے کہ ایک صوبائی اسمبلی قبل از وقت تحلیل کئے جانے کی صورت میں دیگر صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹرز کے انتخاب میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ پھر تحلیل اسمبلی کے براہ راست انتخابات کے بعد اس صوبے سے سینیٹرز کا انتخاب ہو گا تاہم اس عرصہ میں ایوان بالا نامکمل اور معطل رہے گا۔ دستور سازی کا عمل بھی نہیں ہو سکے گا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی نہیں ہو سکتا۔ آئین کے آرٹیکل 224کے تحت سینیٹ کے الیکشن کے لئے وفاق کے چاروں یونٹس کا ہونا لازمی ہے۔ اگر عمران خان صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کو تحلیل کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں