"KDC" (space) message & send to 7575

کاغذات نامزدگی فارم میں ترامیم کا پس منظر

حکومت اور اپوزیشن نے باہمی اشتراک سے کاغذات نامزدگی کے فارم سے مالی گوشواروں، دوہری شہریت کا کالم اور حلف نامہ حذف کروا دیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی طرح اثاثوں کی تفصیلات کے فارم کو بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ بنا کر امیدواروں کو غیر ممالک میں آف شور کمپنیاں بنانے، مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کرنے کے لئے محفوظ ترین راستہ فراہم کر دیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات محدود کر دئیے گئے ہیں تاکہ وہ کاغذات نامزدگی کے فارم میں ترمیم نہ کر سکے، اس سے قبل یہ فارم الیکشن رولز کا حصہ تھا۔
انتخابی اصلاحات کی آڑ میں کاغذات نامزدگی کے فارم‘ جو انتخابی روایات کے مطابق Self Contained Documents کا درجہ رکھتے تھے‘ کی روح کو نکال دیا گیا ہے۔ میں نے وفاقی وزیر خزانہ، اقتصادی امور اور انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار کو خطوط لکھے تھے اور روزنامہ دنیا میں اسی موضوع پر کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اپنے انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ حکومت کاغذات نامزدگی کے فارم میں کسی قسم کی ترامیم یا اخراج سے اجتناب کرے کیونکہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے الیکشن رولز بنانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وسیع اختیارات تفویض کر دئیے تھے۔ جب انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کے ذریعے کاغذات نامزدگی کے فارم میں مجوزہ مالی گوشواروں اور آئین کے آرٹیکل 62-63 کی رو سے دوہری شہریت کے بارے میں حلفیہ بیان کو حذف کرنے کا علم الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہوا تو چیف الیکشن کمیشن نے 16 مئی 2017ء کو انتخابی اصلاحات کمیٹی کو خط لکھا‘ جس میں انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی ترمیم کی تجاویز الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائیں جو آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت خود ضرورت کے تحت تبدیلی کا مجاز ہے۔ 
انتخابی اصلاحات کمیٹی کے بعض ارکان نے یہ تجویز دی تھی کہ قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے نامزدگی فارمز کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے ڈرافٹ کے سیکشن 60 اور 109 کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ مستقبل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اس میں ترامیم نہ کر سکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا موقف تھا کہ الیکشن کے رولز بنانے کے اختیارات کو محدود نہ کیا جائے۔ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار تھا کہ وہ فارمز کی تشکیل خود کرے تاکہ آرٹیکل 218(2) کی ضرورت پوری ہو سکے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن الیکشن قوانین 2017ء کے ڈرافٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کئے گئے تمام فارمز کا تبادلہ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات سے کیا جائے اور اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی کا رکن کسی فارم میں کسی تبدیلی کی کوئی تجویز دے تو اس تجویز کو تحریری صورت میں الیکشن کمیشن کو بھجوایا جائے‘ اور الیکشن کمیشن اگر ضروری سمجھے تو اس پر غور کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹٰیکل 218(2) کے تحت تفویض کردہ اختیارات کے تحت کسی بھی امیدوار‘ جس نے نامزدگی فارم جمع کروایا ہو‘ سے کسی بھی قسم کی معلومات طلب کر سکتا ہے تاکہ آزاد، صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔
چیف الیکشن کمیشن جسٹس سردار رضا نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان کو ایک خط لکھا تھا کہ نامزدگی فارم 2013ء کے انتخابات میں کچھ ترامیم اور کرپٹ پریکٹس کے ازالے کے لئے جو اقدامات کئے گئے‘ وہ 14 مارچ 2013ء کے حکم نامے کا حصہ ہے اور عدالتی موقف بھی یہی ہے‘ لہٰذا اعلان کیا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 218(3)‘ کو آئین کے آرٹیکل 222، عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ 103 اور 104 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو جو فارمز تیار کئے گئے‘ وہ آئندہ عام انتخابات کے لئے آئین و قوانین کے تحت ہوں گے۔ دلائل کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات کمیٹی سے درخواست کی تھی کہ مشاہدات کا تبادلہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمان کمیٹی کے ساتھ کیا جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کے بعد پارلیمان کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات نے کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کو مدعو نہیں کیا‘ اور خود فیصلے کرنے کو ترجیح دی تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فارم میں تبدیلی کے اختیارات کو محدود کیا جا سکے۔
پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے کاغذات نامزدگی کے فارم کو بے اثر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کو یکسر نظر انداز کر دیا‘ اور جن کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے کے جرم میں نواز شریف کو آرٹیکل 62(1) الف، عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 99 الف، عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 12 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 78 کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا‘ اس کی شقوں کو کاغذات نامزدگی سے خارج کر دیا گیا۔
اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے باہمی اشتراک سے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ42(A) اور سینیٹ ایکٹ 75 کی دفعہ 25(A)‘ جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ اپنے اثاثوں کی تفصیل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کرانے کے لئے قانونی طور پر پابند تھے‘ کو حذف کر دیا گیا ہے۔ پاکستان اسلامی مملکت ہے اور ان کے ارکان کا صادق و امین ہونا لازمی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی ملی بھگت سے جو انتخابی اصلاحات پارلیمنٹ سے منظور کی گئی ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 218(2) کے مطابق نہیں۔
واضح رہے کہ عوامی نمائندگی کا ایکٹ 76، الیکٹورل رول 74، حلقہ بندی ایکٹ 74، سینیٹ ایکٹ 75، اور دیگر قوانین جو 1973ء کے آئین کی چھتری کے نیچے بنائے گئے تھے‘ ان کو نئے الیکشن ایکٹ 2017ء کے نفاذ کے بعد منسوخ کر دیا گیا ہے۔ پرانے الیکشن قوانین کا حجم 350 صفحات پر مبنی تھا جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء صرف 88 صفحات پر محیط ہے۔ سابقہ عوامی نمائندگی 42-a اور سینیٹ ایکٹ 75 کی دفعہ 25A کے تحت اگر پارلیمنٹ کے ارکان اپنے گوشواروں میں حقائق چھپانے کے جرم میں ملوث پائے جاتے تھے‘ تو ان کے خلاف بدعنوانی کے تحت فوجداری مقدمہ درج کرانے کے اختیارات موجود تھے‘ جس کے تحت تین سال کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ اب موجودہ ایکٹ میں ان گوشواروں کی اہمیت ختم کرتے ہوئے بدعنوانی کی شق ختم کر دی گئی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں اپنے گوشواروں میں ترمیم کرا لیں۔ یہ فیصلہ بدنیتی سے حکومت نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کے مشورے سے کرایا ہے۔ انتخابی حلقہ بندیاں کرنے کے لئے قانوناً چند اصول ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کرنے کے لئے مردم شماری ڈیٹا اور موضع اور بلاکس کے نقشہ جات الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ نادرا سے حاصل کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور محکمہ سروے آف پاکستان اور گوگل سے بھی راہنمائی حاصل کرنے میں حرج نہیں ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ نے مردم شماری کے نتائج پر سندھ کے عوام کے تحفظات دور کرنے کے لئے تجویز پیش کی کہ ایک فیصد آبادی کی از سر نو آزمائشی طور پر مردم شماری کرائی جائے۔ انہوں نے مردم شماری کے ایک لاکھ 68 ہزار بلاکس کا ڈیٹا جلد جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے ایک فیصد آبادی کی آزمائشی مردم شماری کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ مردم شماری کے ایک فیصد بلاکس پر نظرثانی تھرڈ پارٹی سے کرائی جائے گی اور پھر ان اعداد و شمار کا موجودہ اعداد و شمار سے موازنہ کیا جائے گا۔ اس عمل کی تکمیل کے لئے تین ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
فاٹا کے مستقبل کے بارے میں ملک کی بیشتر پارلیمانی جماعتیں متفق ہیں کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں مدغم کر دیا جائے۔ اگر الیکشن سے پیشتر فاٹا کو مدغم کرنے کا محرک سامنے آتا ہے تو قومی انتخابات ایک سال کے لئے موخر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ کیونکہ فاٹا کے ادغام سے از سر نو حلقہ بندیاں، ریونیو کی جغرافیائی حدود کا تعین، انتخابی فہرستیں فاٹا کی آٹھ ایجنسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کرنا اور صوبائی نشستوں کا تعین کرنے جیسے کوہ ہمالیائی مسائل درپیش آئیں گے۔ فاٹا کو مدغم کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے۔ اس کا فیصلہ اب آئندہ انتخابات کے بعد ہی کئے جانے کے امکانات ہوں گے۔ موجودہ حالات میں انتخابات سے قبل فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ ناممکن نظر آتا ہے۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں