"KDC" (space) message & send to 7575

حقیقی نمائندگی اور 51 فیصد کا سسٹم

نااہل شخص کی پارٹی قیادت سے محرومی سے متعلق اپوزیشن کا مسودہء قانون‘ جو ایوانِ بالا (سینیٹ) میں منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے مسترد کیا جا چکا ہے‘ کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانے کے قوی امکانات ہیں۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ اسی بنا پر مذکورہ بل وہاں منظور ہو گیا تھا‘ جبکہ قبل ازیں مسلم لیگ (ن) نواز شریف کو پارٹی صدارت کا اہل قرار دلانے کا بل بھی سینیٹ سے منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ سینیٹ سے‘ جہاں اپوزیشن ارکان اکثریت میں ہیں‘ اس بل کو منظور کرا لینا بلا شبہ نواز شریف کی بڑی کامیابی تھی۔ قومی اسمبلی میں حکمران پارٹی نمایاں اکثریت کی حامل ہے، اس لئے پاناما کیس میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کو پارٹی کی صدارت دینے والی شق کی منظوری نہ اس وقت کوئی مسئلہ تھی‘ نہ اس بار کوئی مسئلہ بنی۔ پارلیمانی طور پر یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گیا تو وہاں سے بھی حکمران جماعت نواز شریف کو پارٹی صدارت جاری رکھنے والی شق 2003 آسانی سے منظور کروا لے گی‘ کیونکہ سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ایسا ہی ایک قدم مغربی پاکستان اسمبلی کے معراج خالد‘ جو صوبائی اسمبلی کے با اثر رکن تھے‘ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی معراج کو دیکھتے ہوئے اٹھایا تھا۔ وہ راتوں رات 'ضمیر کی آواز‘ کے عنوان سے پمفلٹ کی اشاعت کے ذریعے حکمران جماعت سے لا تعلقی کا یک طرفہ اعلان‘ اور اپنے ہمراز دوست شیخ رشید کے ہمراہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے اقتدار میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے‘ حالانکہ مرحو م ذوالفقار علی بھٹو ان کو ذاتی طور پر پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کے پس منظر میں کسی روز تفصیل سے لکھوں گا۔ اب حکمران جماعت پر نواز شریف کی مضبوط گرفت واضح ہو گئی ہے اور ارکان اسمبلی میں معراج خالد بننے والے ابھی ظاہر نہیں ہوئے ماسوائے ظفراللہ خان جمالی کے۔ ہمارے حکمران اگر بعض ٹھوس امور پر توجہ دیں تو دور رس مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ ان امور میں سرِ فہرست ترقی پسندانہ اقتصادی پالیسی واضح کرنا ہے۔ ایسے اصول جو مستقبل کی ہر حکومت کے لئے ترجیحِ اول ہوں، اس کے ساتھ ساتھ الیکشن شیڈول اور ضابطہء اخلاق کی تیاری کے لئے بھی تمام سیاست دانوں کو مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ اگر میعادِ حکومت کا مستقل شیڈول بنا کر انتخابی مہم، انتخابات کی تاریخوں، منتخب نمائندوں کے لئے ہوم ورک کی مہلت اور حکومتی میعا دکے آغاز و اختتام کا وقت تعین کرنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے تو عوام کو پارٹیوں کے منشور پر ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینے سے ووٹر ٹرن آئوٹ میں اضافہ کی قوی امید ہے۔
پاکستان کی معیشت پر بیرونی اور اندرونی قوتوں کا دبائو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ تجارتی خسارہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انتہائی قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال ملک پاکستان کی معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس کمزوری کی بنیاد 1990ء میں نواز شریف کے اقتدار میں آنے سے پڑ گئی تھی‘ جب انہوں نے موٹر وے کے تعمیراتی اخراجات کو یکلخت 7 ارب روپے سے 35 ارب روپے تک پہنچا دیا تھا۔ بعد ازاں ملک میں منی لانڈرنگ کا آغاز کرکے پاکستان کی معیشت کو زمین بوس کرنے کے لئے محفوظ راستے دکھائے گئے اور اس کے لئے معمولی سے اہلکار اسحق ڈار کے جادوئی طریقے اختیار کئے گئے۔ اسی طرح ایک پیرزادہ صاحب آئین میں نقب زنی کے ماہر تھے۔ انہوں نے 1967ء سے 2013ء تک آئین میں تحریف کے کئی گُر حکمران جماعتوں کو بتائے اور اس طرح ملک ہمیشہ آئینی بحران کی زد میں رہا۔ معاشی میدان میں پاکستان کے آگے نہ بڑھنے کی دو بہت بڑی وجوہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کو پسپا کرنا‘ اور قومی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا ہیں۔
1960ء کے عشرے میں پاکستان انتہائی تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا تھا۔ اسی دور میں دنیا بھر کے حکمران کراچی کی سڑکوں، حبیب بینک پلازہ اور اعلیٰ ہوٹلز کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آج دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت چین کے اس وقت کے حکمران وزیر اعظم چو این لائی پاکستان کی صنعتی ترقی کے مداح تھے۔ اسی پس منظر میں پاکستان نے 1962ء کے اوائل میں مغربی جرمنی کو گرانٹ بھی دی تھی۔ میرے خیال میں 1960ء کے عشرے کی پالیسیوں کو سبوتاژ کرنے میں ڈاکٹر محبوب الحق کا اہم کردار رہا‘ جنہوں نے صدر ایوب سے ذاتی بغض اور عناد کی وجہ سے سی آئی اے حکام سے مل کر پاکستان کا تیسرا پنج سالہ منصوبہ ناکام بنایا۔ قارئین اس ایشو کی گہرائی میں جانا چاہتے ہیں تو 1968ء کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کے تعاون سے جب وہ ورلڈ بینک میں کلیدی عہدے پر فائز تھے تو ان کے تعاون سے پاکستان کا تیسرا پپنج سالہ منصوبہ ناکام بنانے کے لئے پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں کی معاونت حاصل کی گئی‘ جس میں اولین کردار مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمان کا تھا۔
1970ء کے بعد پاکستان کی مضبوط بنیادوں پر استوار پالیسیاں تبدیل کر دی گئیں۔ پہلے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پالیسیوں میں مکمل تبدیلیاں کرکے دنیا بھر میں اختتام پذیر سوشلزم کے ناکام تجربات پاکستان پہ لاگو کرکے تمام صنعتیں قومیا لیں۔ وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے یقیناً کئی اچھے اقدامات بھی کئے۔ ان میں سرِ فہرست پاکستان کو آئین دینا، ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھنا سب سے اہم ہیں؛ البتہ ذوالفقار علی بھٹو نے بنیادی جمہوریت کے سسٹم کو ختم کرکے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو ابھرنے نہیں دیا، مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتطامی اور مالیاتی اختیارات سے محروم کر دیا گیا اور ریاست مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور نشوونما کرنے میں ناکام رہی۔
جنرل ضیاء نے 5 جولائی 1977ء کو مار شل لاء کے ذریعے بھٹو کی حکومت ختم کر دی۔ جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کی کئی پالیسیوں کو تبدیل کیا‘ لیکن 1960ء کے عشرے والی پالیسیوں کو بحال نہیں کیا‘ اور صدر ایوب کے پنج سالہ منصوبوں کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں لی۔ اسی طرح اس دور میں پاکستان کی صنعتی ترقی اور زرعی خوشحالی کے لئے کوئی خاص منصوبہ بندی اس لئے نہیں ہونے دی گئی کہ عوام میں خوشحالی آنے سے عوام ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
جمہوری نظام میں حکومت بنانے کے لئے اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے۔ اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت مل جانا کسی جماعت کی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں رائج انتخابی نظام میں کسی حلقے سے اقلیتی ووٹ لینے والا باآسانی منتخب قرار پا سکتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں 8 کروڑ 42 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 4 کروڑ 50 لاکھ نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اسی میں سے مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 48 ووٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی 166 نشستیں حاصل کیں، تحریک انصاف نے 76 لاکھ ووٹ اور 35 نشستیں، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے 69 لاکھ ووٹ اور 42 نشستیں، متحدہ قومی موومنٹ نے 24 لاکھ ووٹ اور 24 نشستیں حاصل کیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) 15 لاکھ اور 15 نشستیں، پاکستان مسلم لیگ (ف) 10 لاکھ اور 6 نشستیں، عوامی نیشنل پارٹی 4 لاکھ 50 ہزار اور تین نشستیں، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی 2 لاکھ ووٹ 4 نشستیں، نیشنل پیپلز پارٹی 2 لاکھ ووٹ اور 3 نشستیں۔ اسی پس منظر میں 2013ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں نواز شریف کی جماعت کے 166 اراکین کو ووٹ ڈالنے والے عوام کے 33 فیصد کا اعتماد حاصل ہے‘ 67 فیصد ووٹرز کی نمائندگی 106 اراکین کے ذریعے ہو رہی ہے۔ عوام کو واضح کرنا ضروری ہے کہ 17 فیصد ووٹ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد 35 اور 15 فیصد ووٹ لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی نشستوں کی تعداد 42 ہے۔ میری سوچ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی رائے کی حقیقی عکاسی کے لئے موجودہ طریقہء انتخاب میں تبدیلی کرتے ہوئے Run Of Election کے فارمولے کے تحت 51 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی قرار دینے کے لئے فرانس، جرمنی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے انتخابی نظام کو مدِنظر رکھنا انتخابی اصلاحات کمیٹی کا قومی فریضہ تھا‘ جو شاید پورا نہیں کیا گیا۔ اندرونی کہانی یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے اپنی اپنی پارٹی کے مفادات کے تحت ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی پسند کی قانونی شقیں شامل کرنے کی کوشش کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں