"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن ایکٹ کی ایک غور طلب شق

ضروری ہے کہ ملک کے موجودہ حالات اور آئینی تقاضوں کے پیش نظر انتخابات نہ صرف مقررہ مدت پر ہوں بلکہ ہر طرح سے شفاف اور آزادانہ بھی ہوں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات کا ایک بار پھر تفصیلی جائزہ لیا جائے تاکہ مستقبل میں مزید مسائل نہ سر اٹھا لیں اور یوں اگلے انتخابات کے ٹھیک ہونے یا نہ ہونے کی بحث نہ شروع ہو جائے۔ یوں تو پارلیمانی جمہوریت کے حامل ملکوں میں کبھی بھی قبل از وقت الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے اور الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام متعلقہ اداروں کے رابطے اور تعاون کے ساتھ‘ ہر وقت انتخابات کے لئے تیار رہے‘ لیکن جب کوئی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہو تو تیاریاں اور بھی زیادہ اور بھرپور ہونی چاہئیں۔ لیکن ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہوا ہے کہ مردم شماری وقت پر نہیں ہو سکی اور جب ہوئی ہے‘ انتخابات کا وقت قریب آ چکا ہے؛ چنانچہ الیکشن کمیشن کی تیاریاں مکمل نہیں ہیں‘ کیونکہ اسے نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقے تشکیل دینے کے لئے جو وقت درکار ہے‘ وہ کم پڑتا جا رہا ہے۔ مردم شماری کے تاخیر سے انعقاد کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ اگلے سال الیکشن وقت پر ہو سکیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار تاحال الیکشن کمیشن تک نہیں پہنچے۔ ایک اس وجہ سے یعنی مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار موصول نہ ہونے کے سبب‘ اور پھر حلقہ بندیوں کے لئے قانون سازی میں حائل بعض رکاوٹوں اور کچھ تکنیکی الجھنوں کے باعث اگر عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے خدشات جنم لے رہے ہیں تو انہیں زیادہ غلط اور بے سبب نہیں کہا جا سکتا۔ اس تاخیر میں زیادہ کردار پارلیمانی پارٹیوں کا ہے جو نئی حلقہ بندیوں کے ضروری ترمیم پر ہی یک آواز اور ہم آہنگ ہی نہیں ہو پا رہیں۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے جاری کیفیات نے یہ رجحان پیدا کر دیا ہے کہ معمول کے معاملات میں بھی جب تک فیصلوں اور اعلانات کی نوبت نہ آ جائے‘ متعلقہ محکمے کام شروع نہیں کرتے اور ان محکموں کے حکام بھی سوئے پڑے رہتے ہیں۔ اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہئے۔ ہمیں آزادی حاصل کئے ستر برس ہو چکے ہیں۔ اپنے فرائض سے غفلت کب تک؟ ہمیں بالغ نظر قوم بننا ہے۔ اس کے لئے حقائق سے نظریں چرانے کا سلسلہ ترک کرنا ہو گا۔
موجودہ حالات میں ہمارے قانون ساز اداروں، محکمۂ شماریات اور الیکشن کمیشن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کریں اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کریں۔ انتخابی اصلاحات کا اصل فساد اس وقت سامنے آیا جب اسحاق ڈار کی چیئرمین شپ میں انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی، جن کی آئین اور قانون کے بارے میں آگاہی بڑی محدود تھی۔ میں نے اس وقت اس معاملے کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے تجویز پیش کی تھی کہ یہ ذمہ داری اسحاق ڈار کے بجائے احسن اقبال کو سونپی جائے تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ بعد ازاں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چیئرمین زاہد حامد صاحب کو بنا دیا گیا۔ میں نے ان کے تقرر پر بھی اعتراضات اٹھائے کیونکہ میرے خیال میں ان کے ارد گرد کچھ ملکی اور غیر ملکی‘ غیر سرکاری تنظیموں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ میں نے وزیر اعظم اور اسحاق ڈار صاحب کو اس سارے معاملے کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا‘ لیکن میری بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی‘ لہٰذا اب میری اطلاع یہ ہے کہ بڑی ہوشیاری سے سب کمیٹی کے ارکان کے ذریعے لابنگ کرتے ہوئے‘ کاغذات نامزدگی کے فارم میں تبدیلیاں کروا دی گئی تھیں۔ 
انتخابی اصلاحات کمیٹی کی ایک میٹنگ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وفاقی سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کے فارمز کا تعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رولز سے ہے‘ اس لئے انہیں انتخابی قانون میں شامل نہ کیا جائے۔ اور یہ کہ حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کا معاملہ انتہائی حساس ہے، اس کو نہ چھیڑا جائے لیکن کمیٹی کی ایک رکن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مؤقف کو مسترد کر دیا۔
اس طرح کسی بحث و تمحیص کے بغیر حلف نامے میں تبدیلی ہو گئی اور معاملات بدترین صورت حال تک پہنچا دئیے گئے۔ اس کے اثرات پورے ملک پہ پڑ رہے ہیں اور حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ بعض وزرا بودی دلیلوں کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غلط بیانی بھی کی جا رہی ہے۔ یہ عقیدے اور عاقبت کا معاملہ ہے‘ دنیا داری کا نہیں۔ 
اگرچہ پارلیمانی کمیٹیوں کے 126 اجلاس ہوئے، ریکارڈ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے‘ لیکن مسئلہ ہزاروں صفحات کا نہیں صرف ایک صفحے کا ہے‘ جس پر امیدوار کے حلف نامے کا تذکرہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس صفحے کے حوالے سے کمیٹیوں کے اجلاس میں کس نے کردار ادا کیا۔ باقی تقریباً 88 صفحات پر تو انتخابی ایکٹ کی تفصیلات ہیں، اس ایک صفحے پر پردہ ڈالنے کے لئے ہزاروں صفحات کا ایسے ذکر کیا جاتا ہے‘ جیسے معاملہ ہزاروں صفحات میں تلاش کرنا ہو۔ یہ کام تیس دنوں کا نہیں‘ صرف ایک ہفتے کا ہے۔ کبھی کا ہو جانا چاہئے تھا۔ ایک کاغذ میں تحریف سے حکمران جماعت کی رٹ زمین بوس ہو گئی۔ آئندہ انتخابات میں انہیں عوام کے سامنے اس معاملے میں یقیناً جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ کمیٹی کے بعض ارکان نے برملا اظہار کر دیا ہے کہ اس شق کو کمیٹی میں زیر بحث لایا ہی نہیں گیا۔ اسی لئے کمیٹی کے ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ کارروائی کی سرکاری ریکارڈنگ کی جانچ پڑتال کروائی جائے‘ حقیقت سامنے آ جائے گی۔ ہماری محترم راجہ ظفرالحق سے استدعا ہے کہ صرف ایک ہی صفحہ دیکھا جائے‘ ہزاروں صفحات میں وقت ضائع نہ کیا جائے کیونکہ اس سارے معاملے نے پورے ملک کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ انتخابی اصلاحات بل کی ایک شق میں تبدیلی ناقابل قبول ہے۔ نواز شریف صاحب کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل مجرموں کو سزا دلوائیں۔ میرے خیال میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اکابرین کو خود احتسابی کے عمل سے بھی گزرنا چاہئے تاکہ وہ اس کا ازالہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ 
افواجِ پاکستان نے پُرامن طریقے سے احتجاج ختم کروا دیا، فوج نے چند گھنٹوں میں معاملات حل کروائے اور ملک مزید بحران سے محفوظ ہو گیا۔ زاہد حامد کی سبکدوشی سے معاملات ٹھنڈے پڑ گئے۔
میرے خیال میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے الیکشن 2017ء میں آگے چل کر ایسی غلطیوں کا انکشاف ہو سکتا ہے‘ جس سے الیکشن ایکٹ 2017ء غیر اہم اور نقصان دہ ثابت ہو گا۔ میری تحقیق یہ کہتی ہے کہ ہمارے آئینی اور قانونی ماہرین نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 25 پر غور ہی نہیں کیا‘ جس کی آڑ میں قادیانیوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کروانے کے لئے نادرا کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت وزارتِ قانون و انصاف کو کرنا ہو گی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اس شق کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں انتخابی اصلاحات کے معاملے میں مزید آئینی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے اور اگلے سال ملک میں عام انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہو سکے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں