"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن انتخابی ایکٹ 2017ء ……(2)

اس سرٹیفکیٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن کی تاریخ، نام، عہدے اور وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر منتخب عہدیداران کے پتے درج ہوں گے، جبکہ انتخابی نتائج اور پارٹی کی جانب سے ان نتائج کے اعلان کے نوٹیفکیشن کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے گا۔ سیکشن 201 کے تحت ہر سیاسی جماعت تنظیمی قانون سازی کرے گی‘ جس میں اس کے مقاصد، وفاقی صوبائی اور قبائلی سطح پر تنظیمی ساخت‘ ارکان کی جانب سے پیش کردہ رکنیت سازی کی فیس اور عہدے کی تفصیلات شامل ہوں گی۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی تنظیمی قانون سازی کی نقل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کریں گی‘ اور اس میں کی جانے والی کسی بھی قسم کی تبدیلی سے الیکشن کمیشن کو 15 روز کے اندر آگاہ کریںگی۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت 60 روز کے اندر اپنے اکائونٹس کے گوشوارے‘ جو کہ کسی چارٹرڈ اکائونٹنٹ سے آڈٹ کروائے گئے ہوں گے‘ الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے گی‘ جس میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی رپورٹ بھی شامل ہو گی جبکہ پارٹی سربراہ کا دستخط شدہ سرٹیفکیٹ بھی رپورٹ سے منسلک ہونا چاہئے۔ 
الیکشن کمیشن نے انتخابی ایکٹ 2017ء پر من و عن عمل کرتے ہوئے خوش آئند اقدامات کئے ہیں اور انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے دانش مندی سے سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے بارے میں واضح اصول اپنائے ہیں۔ اس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان 300 کے لگ بھگ انتخابی نشانات بھی ان خود ساختہ سیاسی جماعتوں سے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا‘ جنہوں نے الیکشن سمبل الاٹ کروانے کے بعد الیکشن کمیشن کو دو راہے پر کھڑا کر رکھا تھا‘ اور جو انتخابی نشانات کی آڑ میں سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ 
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے جو سمت متعین کی ہے‘ اس کی روشنی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے بارے میں ٹھوس حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے وضاحت کرنا ہو گی کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق کوئی شخص بیک وقت دو پارٹیوں کی ممبرشپ یا عہدے نہیں رکھ سکتا۔ لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر گردش کرتی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بیشتر ارکان پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے عہدوں پر بھی براجمان ہیں‘ جیسا کہ آصف علی زرداری بیک وقت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت ایک پارٹی کے سمبل پر دوسری پارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتی‘ جبکہ لاہور کے حلقہ این اے 120 میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا انتخابی نشان تیر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو تفویض کیا گیا۔ اگر دونوں پارٹیوں کا اتحاد ہوتا ہے تو پھر پارٹی کا نام تبدیل کرنا ہو گا‘ جس طرح 19 جنوری1977 ء کو پاکستان نیشنل الائنس کو ہل کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا تھا‘ جس میں 9 سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ اسی طرح 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس بناتے ہوئے تیر کا نشان حاصل کیا تھا۔ یوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اگر مشترکہ طور پر تیر کا نشان حاصل کرتی ہیں تو ماضی کے اصولوں کے تحت الائنس بنانے کا باضابطہ اعلامیہ‘ الیکشن ایکٹ 2017 ء کی ضرورت ہے۔
اگر منسوخ شدہ قوانین پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کو مدِنظر رکھا جائے‘ تب بھی اسی کے آرٹیکل 14 کے مطابق ان دونوں پارٹیوں کو مدغم کر کے یا پھر اتحاد کی صورت میں انتخابی نشان الاٹ کیا جانا میری دانست میں ضروری تھا۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین جس طرح خلط ملط ہو کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، سید اقتدار حسین‘ جو پاکستانی نژاد ہیں اور عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں‘ نے اسی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن میں آئینی اپیل آرٹیکل 199 کے تحت داخل کی ہوئی ہے اور ان کی دونوں درخواستین سماعت کی منتظر ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس قانونی نکتہ پر وضاحت کرتے ہوئے اس ابہام کو دور کرنا چاہئے تاکہ معاملات کو سیدھا اور واضح رکھا جا سکے۔
نواز شریف کے نااہل ہونے پر ان کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کرنے کے بارے میں مقدمات کا آغاز ہوا ہے‘ اور حدیبیہ پیپر ملز پر مقدمات کی سماعت شروع ہوئی۔ شریف برادران نے موجودہ آئین کے بجائے نئے عمرانی معاہدہ کا عندیہ دیا ہے۔ بادی النظر میں شہباز شریف نے موجودہ آئین کے متبادل کے طور پر نیا عمرانی آئین بنانے کی مہم شروع کر دی ہے‘ حالانکہ موجودہ آئین 1973ء میں عمرانی معاہدے کی صورت میں 14 اگست 1973ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے نافذ کیا تھا۔ اب شہباز شریف کی منشا ہے کہ نیا عمرانی معاہدہ طے کیا جائے تو پھر ملک میں آئین ساز اسمبلی کے لئے انتخابات کرانے ہوں گے، اور ایک نئے عمرانی معاہدے کے ایجنڈے پر آئین ساز اسمبلی تشکیل دینا ہو گی۔ ہمارے سیاسی راہنمائوں کو آئین کی باریکیوں کا ادراک نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ نئے عمرانی معاہدہ کے لئے آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے ذریعے ہی شہباز شریف کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ موجودہ اسمبلی نئے عمرانی معاہدے کے ذریعے قانون سازی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 27 رکنی ایگزیکٹو کونسل تشکیل دی ہے حالانکہ پارٹی آئین میں اس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس کی وضاحت کے لئے فوری نوٹس جاری کرنا چاہئے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین سے ماروا کارروائی کرنے پر الیکشن کمیشن کسی بھی پارٹی کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان میں محترم گورنر صوبہ خیبر پختونخوا، گورنر سندھ، گورنر پنجاب اور سپیکر قومی اسمبلی کو شامل کر کے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ان آئینی عہدوں پر فائز لوگ کسی بھی سیاسی پارٹی کے باضابطہ رکن بننے کے اہل نہیں ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بے چینی، پس ماندگی، تشدد، لاقانونیت اور انتشار کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے عام آدمی کو زندگی کی بنیادی خوشیوں سے بھی محروم کر دیا ہے۔ روزی روٹی کی فکر اسے گھیرے رکھتی ہے۔ افسوس کہ ان مسائل میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ریاست پاکستان کو برطانوی نظم کے تحت ہی چلایا جا رہا ہے اور اس کے لئے اس کے بالکل اپنے اور آزاد نظم تشکیل نہیں دیا گیا‘ جس کا نتیجہ اختیارات کی مرکزیت اور سماجی انصاف کے نہ ہونے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اس عمل نے حکمران طبقات، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی گرفت مضبوط کر دی ہے، حکمران طبقات نے عوام کو ایک فلاحی ریاست کا ڈھانچہ فراہم کرنے کے بجائے منی لانڈرنگ نظام کو مزید مضبوط کر دیا ہے، تاکہ یہ سب کے لئے آسان ہو جائے۔ اب مقامی‘ علاقائی اور عالمی منظر پر جو نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے‘ اس کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو محسوس ہو گا کہ پاکستانی ریاست بوسیدہ نظام کے بجائے ایک نئی عوامی فلاحی ریاست کا تقاضا کر رہی ہے اور یہی قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ ہے۔ اب یہ ہماری قیادت پر ہے کہ وہ اس ضرورت کا کس قدر ادراک کرتی ہے اور اس کے لئے کیا اقدامات کر سکتی ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں