"KDC" (space) message & send to 7575

معاشی بحران اورحکومت

ہمارے ملک میں کچھ عاقبت نا اندیش سیاستدان بڑے پوشیدہ طریقے سے پاکستان کی معیشت، صنعت، تجارت اور دولت پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت سے تو سبھی واقف اور آگاہ ہیں کہ دنیا میں امریکی حاکمیت کی اصل وجہ اس کی فوجی طاقت نہیں بلکہ اس کی معاشی قوت یعنی ڈالر ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ اگر آج اگر دنیا کی واحد سپر پاور ہے تو اسی ڈالر کی بدولت۔ آج بین الاقوامی تجارت بالخصوص دو ممالک کے درمیان ڈالر میں ہونے والا ہر لین دین بھی امریکی معیشت کو مضبوط تر کرتا چلا جاتا ہے۔ ڈالر کی اسی اہمیت کے باعث ہی اس کی قدر میں کمی بیشی دنیا بھر کی معاشی سرگرمیوں میں زلزلہ لے آتی ہے اور سارے ملک لرز کر رہ جاتے ہیں‘ جیسا کہ اس وقت پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں‘ نواز شریف کی نااہلیت کے بعد ان کی تمام تقاریر کا بین السطور جائزہ لیا جائے تو معاملے کی سنگین صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اندازہ کہ مالی مسائل کی وجوہ کیا ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ نواز شریف اپنی تقاریر میں غیر معمولی حادثے کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ غیر معمولی حادثہ کیا ہو سکتا ہے؟ میرا گمان یہ ہے کہ اربوں روپے کی دولت کو بچانے کے لئے مالی اداروں میں اپنے پسندیدہ کارندوں کے ذریعے ملک میں معاشی بحران پیدا کرنے کی کوششوں کی جا رہی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ہی ڈالر کی قیمت میں حالیہ ریکارڈ اضافہ ہوا‘ جو ملکی معیشت کی ہچکولے کھاتی نیّا کو بیچ بھنور میں لے آئے گا۔ اس احتمال کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا معاشی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس پر قابو پانا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے لئے مشکل ترین ہدف بن جائے گا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اسحاق ڈار لندن میں بیٹھ کر پُراسرار طریقے سے اپنے پسندیدہ لوگوں کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسحاق ڈار یہ سب کچھ ایک عالمی مالیاتی ادارے کے ذریعے کروا رہے ہیں۔ ایسے بعض اداروں کی جانب سے ایسا کرنا بعید از قیاس نہیں کیونکہ یہ اپنے مقروض ممالک کے ساتھ ایسا سلوک کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل کہ صورتِ حال مزید خراب ہو‘ پاکستان میں روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو‘ ملک اقتصادی مسائل کا شکار ہو جائے اور اسے پھر کسی عالمی مالیاتی ادارے سے معاشی پیکیج حاصل کرنا پڑے‘ جیسا کہ پاکستان نے 2013ء میں آئی ایم سے اقتصادی پیکیج حاصل کیا تھا‘ حکومت کو فوری طور پر مالیاتی ادارے کے لوگوں کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے اہم عہدوں پر فائز لوگوں کی چھانٹی کرنی چاہیے۔ اس ادارے میں ایک ایسے بھی اعلیٰ عہدے دار ہیں‘ 31 ارکان پارلیمنٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جن کی تقرری کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ اسی طرح اسحاق ڈار کو سبکدوش کر کے‘ ان کی جگہ حکمران جماعت ہی میں سے کسی کو وزیرِ خزانہ مقرر کرنا چاہیے تاکہ ملک کو اقتصادی بحران سے بچایا جا سکے۔ میرے خیال میں رانا محمد افضل اس ضمن میں ایک اچھی آپشن ہو سکتے ہیں‘ جو گزشتہ چار سالوں سے وزارت خزانہ کے امور کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
پاکستانی قوم کو میڈیا کے ذریعے یہ باور کروانا ضروری ہے کہ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے اور روپے کی قدر میں اتنی ہی کمی کے باعث پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 400 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ہر برآمدی شے لا محالہ گرانی کا شکار ہو جاتی ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہماری درآمدات‘ برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں اور ہمیں ہمیشہ تجارتی خسارے کا سامنا رہتا ہے۔ اس طرح عالمی تجارت ہمارے قومی خزانے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ثابت ہو رہی ہے۔ افسوس کہ حکومت کی جانب سے درآمدات و برآمدات میں توازن پیدا کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ جو اقدامات کئے گئے وہ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ چنانچہ مذکورہ اکھاڑ پچھاڑ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے بہت سے خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ ڈالر اور روپے کے تبادلے کا یہ عمل غیر حقیقی ہے‘ اور سٹیٹ بینک نے ایسا اس لئے کیا کہ آزاد معیشت برقرار رہے اور معاشی معاملات چلتے رہیں‘ تاوقتیکہ ڈالر کی قیمت میں کمی کی جائے۔ لیکن میرے خیال میں یہ منفی منصوبہ بندی ہے؛ کیونکہ اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اگر یہی عمل مزید کچھ عرصہ برقرار رہا تو برآمدات‘ جو پہلے ہی زرمبادلہ کے حوالے سے ناکافی ہیں، کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کو برآمدات کے باوجود زرمبادلہ کے حصول میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو معیشت کو مزید تباہ کر کے رکھ دے گا۔ کرنسی کے عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان پر واجب الادا قرضے اس قدر بڑھ جائیں گے کہ ان کی ادائیگی کے لئے مزید مہنگے قرضے حاصل کرنا پڑیں گے۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہماری پارلیمنٹ کو اس اہم ترین موقع پر آگے بڑھنا چاہئے اور ملک کو معاشی خطرات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ نے بروقت ہنگامی بنیادوں پر کارروائی نہ کی تو اس صورتحال میں سٹے بازی سے سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اڑ سکتے ہیں۔ ایسی کسی سنگین صورت حال سے بچنے اور جاری بحران پر قابو پانے کے لئے صدر مملکت کو معاشی ایمرجنسی لگانا پڑے گی۔
عوام کی یاد دہانی کے لئے اپنے کالم کا رخ 1970ء کی دہائی کی طرف موڑ رہا ہوں۔ صدر ایوب خان کے 11 سالہ دور میں ڈالر 4 روپے سے آگے نہ بڑھ سکا تھا‘ لیکن سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد 1972ء میں صدر ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کے دور میں امریکی ڈالر تقریباً 8 روپے کے برابر ہو گیا تھا۔ بعد ازاں وزیر اعظم بھٹو کے دور حکومت میں ڈالر کی قیمت 10روپے تک رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان کے دور میں ڈالر دس روپے سے بڑھ کر 18 روپے ہو گیا اور 1993ء میں ڈالر کی قیمت 28 روپے تک جا پہنچی تھی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے دور میں‘ 1993ء ہی میں ڈالر کی قیمت 36 روپے، 1998ء میں نواز شریف کی حکومت میں 45 روپے ہو گئی تھی۔ مشرف کے دور حکومت میں ڈالر کی انتہائی قیمت 60 روپے تک رہی۔ اس کے بعد 2008ء میں جب اسحاق ڈار چند مہینوں کے لئے وزیر خزانہ مقرر ہوئے تو انہوں نے ڈالر 78 روپے تک پہنچا دیا تھا اور تیسری مرتبہ نواز شریف جب اقتدار میں آئے تو اسحاق ڈار ہی کی وجہ سے ڈالر 102 روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اب شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں ''گھوسٹ وزیر خزانہ‘‘ اسحاق ڈار نے ڈالر 112 روپے تک پہنچا کر ملک کی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے سامنے پاکستانی روپے کو استحکام دلانا وفاقی حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ افسوس کہ منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر اداروں کی موجودگی میں‘ کرنسی مارکیٹ، ریئل سٹیٹ کے بے تاج بادشاہ اور سٹاک مارکیٹ میں سٹے باز داؤ چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اپنے ووٹوں سے سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے والے عوام نااہل اور بدعنوان عناصر کے سامنے بے بس اور محرومی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ ہم پاکستان کے سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ انتخابات میں ووٹ دینے والوں کے حالات بدلنے کا ذریعہ کب بنیں گے؟ ابھی تک تو انتخابات صرف اقتدار پرستوں کی راحت کا ذریعہ بن رہے ہیں جو ووٹ لیتے وقت عصبیت کا سہارا لیتے ہیں اور بعد میں عوام کو بھول جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں