"KDC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کا گرداب

سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں عوامی عہدوں پر منتخب ہونے والے افراد کی اہلیت کے معیار اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت صادق اور امین کی از سر نو تشریح کر دی ہے۔ میرے تجزیے کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں عام انتخابات 2018ء میں‘ بڑی تعداد میں پڑھے لکھے، ایماندار اور اچھی شہرت رکھنے والے نئے چہرے سامنے آنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ آف شور کمپنیاں، خفیہ بیرونی اثاثے رکھنے، این آر او کے تحت قرض معافی یا کرپشن کی طاقت پر نیب سے پلی بارگین کرنے، ٹیکس و یوٹیلٹی نادہندگان اور ان کے اہل خانہ کے لئے کاغذات نامزدگی کی منظوری ناممکن بننے سے تمام بڑی سیاسی برادریوں کے روایتی سیاستدان انتخابی عمل سے قبل ہی باہر ہو جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر منتخب ہونے والے افراد کی اہلیت کا ایک معیار طے کر دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ ریاست کا ڈھانچہ ایماندار افراد پر مشتمل ہونا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے اسی کیس کی سماعت کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت کی ممنوعہ فنڈنگ اور سیاسی جماعتوں کو تحلیل کرنے کے حوالے سے تفصیلی بحث کے بعد میکنزم بھی وضع کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے کہا گیا کہ سیاسی جماعتیں انفرادی طور پر افراد اور اپنے حامیوں سے فنڈنگ لے سکتی ہیں، پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 6 کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کے ارکان اور حامی فنڈز دے سکتے ہیں؛ تاہم غیر ملکی حکومتوں، ملٹی نیشنلز، پبلک و پرائیویٹ کمپنیوں، فرمز، ٹریڈرز اور پروفیشنلز ایسوسی ایشنز سے فنڈز نہیں لئے جا سکتے‘ لیکن انفرادی طور پر افراد سے فنڈنگ لی جا سکتی ہے۔ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 13 کے تحت جو ممنوعہ فنڈنگ ہو گی اس کو حکومت ضبط کر لے گی۔ تحریک انصاف پر یہ الزام ہے کہ وہ غیر ملکی شہریت کے حامل افراد سے فنڈز وصول کرتی ہے۔ اسی حوالے سے فیصلے میں لکھا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کی ممنوعہ فنڈنگ کا جائزہ لے۔ 
اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹس میں آئے کہ کیس پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے رولز 6(3) کے تحت آتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر ممنوعہ فنڈز ضبط ہوں گے۔ جہاں تک عمران خان کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا معاملہ ہے تو اس کو ممنوعہ فنڈنگ والے معاملے کے بعد ایک مجاز عدالت دیکھے گی۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی غیر ملکی فنڈنگ کا تعین کر نے کے لئے مجاز فورم وفاقی حکومت ہے۔ وفاقی حکومت پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 2(c) کے تحت جائزہ لے گی جبکہ اس کی تشکیل کے ممنوعہ ہونے کے بارے میں آرٹیکل3,4 (ایف) کے تحت تعین کرے گی‘ اور اس کے تحت ہی اس پارٹی کو تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر وفاقی حکومت سرکاری گزٹ میں ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری کر دیتی ہے تو اس کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے ریفرنس پر سپریم کورٹ اس معاملے کا جائزہ لے گی۔ غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 2(c) کے مطابق: جن کو کسی غیر ملکی حکومت یا سیاسی جماعت نے تشکیل دیا ہو یا ان کی ایما پر تشکیل دی گئی ہوں یا غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد سے فنڈز لیتی ہوں۔ اس تناظر میں پارٹی فنڈنگ کے حوالے سے عمران خان کے سر پر تلوار اب بھی لٹک رہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس بارے میں مبینہ طور پر دو مشکوک سرٹیفکیٹس کے الزام کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر ملکی فنڈنگ کے الزام کے حق میں رائے دی تو پھر مشکوک سرٹیفکیٹس کے معاملے کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت مجاز عدالت کرے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت متعلقہ اداروں سے معاونت حاصل کرنے کا قانونی طور پر مجاز ہے۔ عدالت کے فیصلے میں تمام سیاسی جماعتوںکو الیکشن کمیشن کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور ان کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بااختیار بنا دیا گیا ہے۔ 
دو اہم مقدمات میں ایسے فیصلے صادر کئے گئے‘ جو پاکستان کی قومی سیاست میں دور رس نتائج مرتب کرنے کا سبب بنیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی کی جانب سے دائر کی گئی‘ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نا اہل قرار دئیے جانے کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں عمران خان پر لگائے گئے بددیانتی اور اثاثے چھپانے کے الزامات مسترد کرکے عمران خان کو بطور سیاسی قائد سب سے بڑی خوبی یعنی دیانت دار ہونے کی عدالتی سند فراہم کر دی ہے، جس سے ان کی مقبولیت اور انتخابی سیاست کی گراف بڑھنے کا واضح امکان پیدا ہو گیا ہے‘ جبکہ زیر بحث آرٹیکل کی زد میں آکر نااہل ہونے سے پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکس گزار پارلیمنٹیرین جہانگیر ترین کے انتخابی گوشواروں میں حقائق کو چھپانے کے ارتکاب نے رکن اسمبلی کے لئے بھی سخت معیار کو واضح کر دیا ہے۔ عدالت نے جہانگیر ترین کو غلط بیانی کا مرتکب قرار دے کر پارلیمنٹ کی رکنیت اور عوامی عہدوں کے لئے تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے۔
عمران خان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے سیاسی اثرات بالکل واضح ہیں۔ اس سے عمران خان سیاسی طور پر بہت مضبوط ہوں گے۔ پاکستان کے عوام کی رائے ہے کہ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور سپریم کورٹ نے ان کو دیانتدار سیاستدان قرار دے دیا ہے۔ ویسے عمران خان کبھی حکومتی عہدیدار نہیں رہے اور ان میں پاکستان کو معاشی قوت بنانے کا جذبہ بھی ہے، اب زیادہ تر حالات عمران خان کے حق میں ہو گئے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور نااہل وزیر اعظم نواز شریف‘ دونوں مل کر عدلیہ اور فوج میں تقرریوں کے حوالے سے جو آئینی ترامیم کرنا چاہتے تھے، اب ان کے ارادے نہ صرف تبدیل ہو چکے ہیں بلکہ بادی النظر میں دونوں پارٹیوں کے عزائم‘ جن سے اداروں میں تصادم ہونے کے امکانات تھے، ختم ہو چکے ہیں۔ اگر عمران خان نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لی تو بہت زیادہ آئینی تبدیلیاں متوقع ہیں جو پارلیمانی جمہوری نظام اور نئے صوبوں کے حوالے سے ہو سکتی ہیں۔ اب معاملات بہت آگے تک جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے دور رس سیاسی اثرات چند ہفتوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ میری پیش گوئی یہ ہے کہ حکمران جماعت کے درجنوں ارکانِ قومی اسمبلی نواز شریف کی غیر مفاہمانہ روش سے تنگ آ کر‘ عمران خان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ اسمبلیوں کے ارکان بھی شہباز شریف اور مراد علی شاہ کی زنگ آلود پالیسیوں سے بیزار ہو کر عمران خان کے کیمپ میں آنے کی سوچ رہے ہیں؛ اگرچہ فارن فنڈنگ کیس میں پانچ سال کی قدغن کو الیکشن کمیشن‘ الیکشن ایکٹ 2017ء کے موجودہ قوانین کے تحت پانچ سال سے تجاوز کرنے کا مجاز ہے اور شنید ہے کہ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کے بارے میں حیرت انگیز مواد الیکشن کمیشن میں داخل کروا چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی کارروائی مکمل ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن‘ اپنے محفوظ فیصلے کو کسی وقت بھی عام کر دینے کی پوزیشن میں ہے۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کا داخل کردہ فنانشل گوشوارہ مسترد کرکے غیر ملکی فنڈنگ کو ضبط کرنے کے امکانات جاری کرنے کے احکامات سے تحریک انصاف کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور اس کے مخالفین فارن فنڈنگ کے حوالے سے پروپیگنڈا کرکے ووٹرز کی رائے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اس لئے عمران خان پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور انسداد دہشت گردی کے کیسز کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کسی بھی موقع پر حکم عدولی‘ یہ تلوار ان پر اچانک گرا سکتی ہے۔ دوسری جانب نواز شریف تحریک چلانے کے لئے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں