"KDC" (space) message & send to 7575

فاٹا اور نئی گریٹ گیم؟

پاکستان میں جمہوریت کے لئے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میرا قیاس یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری اور عالمی و علاقائی سطح پر ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایک نئی گریٹ گیم کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں۔ اس خطے میں ایک بڑی جنگ کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ قوتیں جنوبی و شمالی وزیرستان اور اردگرد کے آزاد علاقوں پر مشتمل ایک نئی مملکت بنانے کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جانتے تھے کہ اس خطے کا سارا کھیل اب ان علاقوں میں کھیلا جائے گا اور یہاں ریاست کا کنٹرول بہت کمزور ہے جبکہ ان علاقوں کا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لئے انہوں نے 1974ء میں اپنے وزیر داخلہ عبدالقیوم خان کی سربراہی میں فاٹا اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جبکہ بھٹو یہ بھی چاہتے تھے کہ مارچ 1977ء کے الیکشن سے پہلے فاٹا کو صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں ضم کر دیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا کی سربراہی کے حصول کے لئے بیرونی امور پر توجہ دیتے‘ اور اپنی توانائیاں تھرڈ ورلڈ کانفرنس کے انعقاد پر صرف کرتے رہے۔ دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خطرات کو بھانپ کر ملک میں سیاسی انتشار برپا کروانے کے لئے دائیں بازو کی جماعتوں کو آگے لانے کا پروگرام بنانا شروع کیا اور مارچ 1977ء کے انتخابات کے بعد اس عالمی منصوبے پر عمل ہوا۔ مارشل لا لگنے کے بعد فاٹا اصلاحات کا منصوبہ تار تار کر دیا گیا۔ اگر بھٹو فاٹا اصلاحات منصوبے پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتے تو آج یہ دنیا کا خطرناک ترین علاقہ نہ ہوتا‘ نہ ہی عالمی طاقتیں اسے گریٹ گیم کا حصہ بنا سکتیں۔
فاٹا اصلاحات کی دوسری کوشش 1995ء میں صدر فاروق خان لغاری نے کی‘ جب انہوں نے فاٹا کے عوام کو ووٹ کا حق دینے کے لئے الیکشن آرڈر 95ء کا آرڈیننس جاری کرایا، جبکہ انہی دنوں میں وزیراعظم بینظیر بھٹو کی خصوصی ہدایات پر الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی انتخابی فہرستوں کے کام کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ یہ آپریشن ایک سال میں مکمل ہو گیا تھا۔ جب نئی آئینی فہرستیں بن چکیں تو اپوزیشن لیڈر نواز شریف کی ایما پر سرتاج عزیز اور وسیم سجاد نے ایک انوکھی پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کروا دی، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے مطابق انتخابی فہرستیں ایک بار ہی بن سکتی ہیں، چونکہ جون 1987ء میں الیکشن کمیشن نے نئی فہرستیں مکمل کر دی تھیں لہٰذا اب اپریل 1995ء میں انتخابی فہرستیں بنانا غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کی نئی انتخابی فہرستوں کا گزٹ کالعدم قرار دے دیا‘ اور جون 1987ء کی انتخابی فہرستیں بحال کر دیں۔ فاٹا کے عوام کے حق رائے دہی کا منصوبہ کہیں پیچھے رہ گیا۔ مگر جب صدر فاروق خان لغاری نے 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تحلیل کرکے ملک میں 3 فروری 1997ء کے انتخابات کا شیڈول جاری کروایا تو ایک خصوصی آرڈیننس کے ذریعے فاٹا کے عوام کو حق رائے دہی دینے کے لئے فاٹا میں انتخابی فہرستیں تیار کرانے کا حکم جاری کر دیا‘ جس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹروں کا اندراج کرایا اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چیف الیکشن کمشنر مرحوم سردار فخر عالم کی ایما پر فاٹا کے لئے آٹھ اسسٹنٹ الیکشن کمشنروں کی پوسٹس بھی صدر فاروق لغاری نے منظور کر دیں اور الیکشن سے پیشتر فاٹا کے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ووٹروں کا اندراج کرا دیا گیا۔
میں نے فاٹا کا پس منظر اس لئے بیان کیا کہ فاٹا اصلاحات صدر آصف علی زرداری بھی نہ کروا سکے تھے۔ اب بھی فاٹا میں جو گیم چل رہی ہے اور فاٹا اصلاحات میں جو رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں وہ اس لئے ہیںکہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے عمران خان اور آصف علی زرداری کو فائدہ پہنچنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ 
نواز شریف نے اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے بعد‘ شہباز شریف کو پاکستان کا اگلا وزیراعظم بنانے کا عندیہ دے کر سازش کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نواز شریف اپنے سیاسی ادوار میں شہباز شریف کو ملک کا وزیراعظم دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے کچھ رازوں پر سے میں اپنی آنے والی سرگزشت میں پردہ اٹھائوں گا، جو بہت جلد شائع ہو رہی ہے۔
میرا اندازہ یہ ہے کہ نواز شریف تحریک عدل کی آڑ میں افواج پاکستان کے خلاف تحریک چلانے کے مشن پر ہیں اور ان کی تحریک شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی طرز پر آگے بڑھے گی۔ شاید وہ برصغیر کا نقشہ تبدیل کرنے کے درپے ہیں اور اسی لئے وہ نااہل ہونے کے فوراً بعد سے 1971ء کی طرز کے حادثے کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔میرا اندازہ یہ بھی ہے کہ ان کا اشارہ جنوبی و شمالی وزیرستان کی طرف ہے‘ جہاں بھارت کی نگاہ لگی ہوئی ہے۔ خوف عموماً اعتماد میںکمی سے جنم لیتا ہے۔اس کی وجوہات میںاہلیت کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کسی منصب پر فائز ہونے کے لئے ذہنی، نفسیاتی، علمی اور عملی طور پر اہلیت بھی ضروری ہوتی ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو بڑے مناصب قوم کے لئے خیر اور فلاح کے بجائے بربادی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایسے نا اہل رہنمائوں پر اعتماد کرنے والی قوم فلاح پانے والوں کے بجائے گمراہوں میں شمار ہونے لگتی ہے، کسی نااہل شخص کو پائلٹ بنا دینے سے مسافر راستے سے بھٹک جاتے ہیں، گمراہ ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے تکلیفوں کے بڑھنے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عوامی نمائندگی کا اعزاز حکومت سازی کا حق دار تو بنا دیتا ہے لیکن یہ حق مل جانے سے قومی اور حکومتی امور کو چلانے کے لئے مطلوبہ صلاحیتیں اور اہلیت خود بخود پیدا نہیں ہو جاتیں، اہلیت کا نہ ہونا بھی حکمرانوں میں خوف کا باعث بنتا ہے۔ خوف کی دو بڑی وجوہات واضح ہو گئیں، اول رائے دہندگان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہ کر پانے کا احساس، دوئم حکومتی امور کے لئے مطلوبہ اہلیت نہ ہونے کا ادراک۔ جمہوری نظام میں حکومت بنانے کے لئے اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے، اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ نشستیں مل جانا کسی جماعت کی بہت بڑی کامیابی ہے، سوال یہ ہے کہ اس دو تہائی اکثریت کے باوجود اس جماعت کو واقعی دو تہائی رائے دہندگان کا اعتماد مل جاتا ہے؟ یہ زمینی حقائق کے بر عکس ہے کیونکہ ہمارے رائج نظام میں کسی حلقے سے اقلیتی ووٹ لینے والا بھی باآسانی منتخب قرار پا سکتا ہے اور ایسا کئی حلقوں میں ہوا ہے کیونکہ ایک حلقے میں اگر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تین لاکھ ہے، وہاں ہونے والے انتخابات میں چھ امیدواروں نے حصہ لیا، حلقے کے پچاس فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا، کامیاب ہونے والے امیدوار نے ساٹھ ہزار ووٹ حاصل کئے، دوسرے نمبر کے امیدوار نے اٹھاون ہزار اور دیگر چار امید واروں نے تیس ہزار ووٹ حاصل کئے، ہارنے والے امیدواروں نے مجموعی طور پر ایک لاکھ بیس ہزار ووٹ حاصل کئے اور اس طرح کامیاب ہونے والے امید وار کو ڈالے گئے ووٹو ں کی اکثریت تو نہ ملی لیکن وہ عوامی نمائندگی کے لئے کامیاب قرار پایا۔ یہی معاملہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے، اسمبلی میں سادہ تو ایک طرف دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت‘ پولنگ سٹیشن آنے والے ووٹرز کی اکثریت کا اعتماد نہیں رکھتی۔ لہٰذا پارلیمنٹ میں پاکستان کے عوام کی رائے کی حقیقی عکاسی کے لئے موجودہ طریقۂ انتخابات میں تبدیلی کرتے ہوئے ہر حلقہ سے 51 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے جیسا کہ مغربی ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ پاکستان میںانتخابی اصلاحات کمیٹی نے قوم کی فلاح کے لئے جمہوری نظام واضح نہیں کیا، اپنے مفادات کو ہی پیش نظر رکھا۔
شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کرنے سے حکومتی جماعت انتشار کا شکار ہونے سے وقتی طور پر تو بچی رہے گی؛ تاہم شہباز شریف کے راستے میں رکاوٹیں پارلیمانی بورڈ کے ذریعے ڈالی جائیں گی جب حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے حامیوں کو پارٹی ٹکٹ ایوارڈ کرتے ہوئے نظر انداز کیا جائے گا اورکہا جاتا ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی کسی کے ہاتھوں یر غمال بن چکی ہو گی اور نگران سیٹ اَپ کو آئینی طور پر اختیارات سے محروم کر دیا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں