"KDC" (space) message & send to 7575

سیاست سے دستبرداری ‘ واحد آپشن

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تحریک عدل شروع کرنے کا عزم کیا ہے اور ووٹ کی حرمت کے لئے جان لڑانے کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔ 28جولائی کو سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ان کی جماعت اندرونی طو پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے اور مجوزہ تحریک عدل کے حوالے سے ان کو پارٹی کے اندر بھی مکمل حمایت حاصل نہیں کیونکہ شہباز شریف اس تحریک عدل اور بعض دیگر قوتوں سے محاذا ٓرائی کو مناسب نہیں سمجھتے،اور چوہدری نثار جو حکمران جماعت کے مرد آہن رہے ہیں انہوں نے بھی نواز شریف کی ایسی تحاریک پر نا پسند یدگی کا اظہار کیا ہے۔ الیکشن2018 میں اگر آئینی اور جمہوری طریقے سے نا اہل سیاستدانوں کو الگ نہیں کیا گیا تو معاشرے میں انتشا ر پھیل جائے گا۔ لہٰذا جب تک طبقہ اشرافیہ اقتدار میں غریب اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کو شریک نہیں کرے گا تو اس ملک کے 12کروڑ نوجوان ڈائنا مائٹ بن سکتے ہیں۔ اگر شیخ مجیب الرحمن کی صورت میں کوئی لیڈر سامنے آ گیا تو پھر اس ملک میں ایسا انقلاب ضرور آئے گا جس میں آئین کا مفہوم مکمل طور پر بدل جائے گا، معاشی محرومیاں ، سماجی نا ہمواریاں انسان کی سوچ و فکر اور مزاج کو بدل دیتی ہیں ۔ جس میں نہ صرف حکومتیں بلکہ معاشرتی وسماجی قدریں، سیاسی و معاشی نظام سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ شہباز شریف جن کی ایماء پر عمرانی معاہدہ کا ذکر کر رہے ہیںان کا مقصد اقتدار ، وراثت اور اقربا پروری اور اپنے خاندان کے اربوں ڈالرز بچانے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اگر شہباز شریف حقیقی عمرانی معاہدہ کو آگے لانا چاہتے ہیں تو انہیں قائداعظم کی طرح اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانا ہو گی اور اس کے لیے انہیں اپنے ذاتی مفادات حتیٰ کہ اپنی اور نواز شریف کی دولت کو بھی قائداعظم کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کے کمزور عوام کے لیے وقف کرنا ہو گی۔عام لوگوں جیسا طرز زندگی اپنانا ہو گا ۔تبھی وہ مائوزے تنگ کی طرح اچھے لیڈر بن سکیں گے اور انقلابی عمل میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کے عوام آہستہ آہستہ مثبت ارتقائی عمل میں ڈھل جائیں گے۔ جیسا کہ آج سے پچاس سال بیشتر سری لنکا کے بندرانائیکے خاندان نے اپنی تمام دولت عوام کے نام ٹرسٹ کی صورت میں کر دی تھی اور عوام نے اس کے ریوارڈ میں اس خاندان کو پچاس سال کی حکمرانی تفویض کر دی تھی۔ اس وقت پاکستان میں چین ، روس اور فرانس جیسے خونی انقلاب کی چاپ سنائی دے رہی ہے جس کی طرف شہباز شریف کئی بار اشارہ دے چکے ہیں۔ 
یہ حقیقت ہے کہ اس خطے میں امن و سلامتی کا دارو مدار افغانستان میںامن و سلامتی پر ہے،اسی تناظر میں علاقائی اور عالمی فورموں پر افغانستان میں امن کی بحالی اور دہشت گردی کے تدارک کے لئے پاکستان نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ معاونت جاری رکھی مگر بد قسمتی سے اس خطے میں وابستہ امریکی مفادات اوراس کے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کے باعث خطے میں امن کی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی،امریکہ نے 2011میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹا گون میں ہونے والی فضائی تخریب کاری کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے افغانستان کو میدان کار زار بنایا،جہاں امریکہ،برطانیہ،فرانس جرمنی سمیت نیٹو تنظیم کے49 رکن ممالک کی چار لاکھ سے زائد افواج مسلسل بارہ سال تک اپنے مخالفین کے تعاقب کی آڑ میں افغانستان کو تورا بورا بنانے میں مصروف رہیں ،اس جنگ کے آغاز ہی میں افغانستان کی طالبان حکومت کو طاقت کے ذریعے ختم کر کے حامد کرزئی کو دس سال تک صدارت کے منصب پر فائز رکھا،اصولی طور پر تو مسلمان ممالک ہونے کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان میں فضا مستحکم ہونی چاہئے تھی،مگر کرزئی نے امریکہ اور بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے باہمی علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے بجائے پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی،اور پاکستان تو اس مقصد کیلئے خلوص نیت کے ساتھ کوششیں بھی کرتا رہا ہے ،اور اس نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس سمیت ہر فورم پر افغانستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے تدارک کے لئے حکمت عملی طے کرنے کی تجاویز پیش کیں ،مگر بد قسمتی سے کابل کے حکمران بھارت کے مفادات کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں،اگر 1957کی دہائی کی طرف جائیں تو تاریخی حقائق یہ ہیں 1957میں افغانستان کے ظاہر شاہ نے صدر سکندر مرزا سے خفیہ ملاقات کرتے ہوئے اپنے ملک کے امن و امان پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سکندر مرزا کو اپنے ملک کا پاکستان سے الحاق کرنے کے لئے پیش کش کی تھی او اپنی بات میں وزن ڈالتے ہوئے کہا کہ کابل مغل دور حکومت میں پنجاب کا حصہ رہا،اور مرحوم اسلم خٹک جو ان دنوں کابل میں پاکستان کے سفیر تھے اس پیش کش کے چشم دید گواہ تھے،اور انہوں نے اپنی کتاب میں اس خفیہ مشن کا ذکر کیا ہے ،لیکن پاکستان کی نا اہل حکومت نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا،اور بعد ازاں اسی طرح کی پیش کش ظاہر شاہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو پاکستان اور افغانستان کی کنفیڈریشن کی صورت میں پیش کی،لیکن پاکستان کی مرکزی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی،اور اب صورت حال یہ ہے کہ 
افغانستان اپنی بالا دستی منوانے کے لئے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے،ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں حسین شہید سہروردی کی بدولت چین کی لازوال ،بے لوث اور پائیدار دوستی میسر ہے، جو ہماری اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے دفاع پر بھی قدم ملائے کھڑا نظر آتاہے، اس بے لوث دوستی کو پاک چین اقتصادی راہداری نے مزید مستحکم بنا دیا ہے، چنانچہ امریکہ اور بھارت کو اس تناظر میں پاک چین دوستی فروغ پاتی سوٹ نہیں کر رہی،اس حوالے سے بھارت تو پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کے لئے پوری دیدہ دلیری کے ساتھ منصوبے بنا رہا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ بھی بھارتی مفادات کے تناظر میں سی پیک پر تحفظات کا مکمل اظہار کر رہی ہے ،اس حوالے سے بھارتی را نے چند اینکرز اور صحافیوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں جن کو لاکھوں ڈالرز کی مالی امداد تحقیق کے نام پر دی جا رہی ہے اور ان کو دہلی، واشنگٹن، ناروے، کینیڈا، ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک میں سیمینارز کے بہانے دورے کروائے جا رہے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ سی پیک کو متنازع کروا کے پاکستانی عوام کو بدظن کیا جائے اور یہاں انڈو نیشیا جیسے حالات پیدا کر دیئے جائیں۔ 1965میں انڈو نیشیا میں چینیوں کا قتل عام کروایا گیا تھا اور خانہ جنگی کے باعث صدر سیکارنو کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا تھا کیونکہ چین نے انڈو نیشیا میں 1951میں سرمایہ کاری کر کے انڈو نیشیا کے معاشی حالات بہتر کرنے میں معاونت کی تھی۔ اس وقت چونکہ مشرق اور یورپ کے بیشتر ممالک سی پیک کے ساتھ منسلک ہو چکے ہیں اور دوسرے متعدد ممالک بھی اس تجارتی راہداری سے استفادہ کے لئے سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اس لئے اس منصوبے کو عملی طور پر کامیاب بنانا چین اور پاکستان کی اولین خواہشات اور ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے اور اس تناظر میں شریف خاندان کو پاکستان میں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف تحاریک چلانے کے بجائے خاموشی سے سیاست سے دستبردار ہو کر پاکستان کی خوشحالی کے لئے اپنے ذاتی مفادات سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں