"KDC" (space) message & send to 7575

امریکی صدر کا ٹویٹ اور الیکشن

یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ طاقتور اور کمزور کے مابین مراسم کسی بھی صورت برابری کی سطح پر قائم نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ماضی میں کئی ایسی غلطیاں ہوئیں‘ جن کے باعث ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا کہ امریکہ نے پاکستان کی سکیورٹی معاونت معطل کرنے اور فوجی ساز و سامان روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ غلطیاں صرف ہماری نہیں تھیں‘ بلکہ دونوں اطراف سے ہوئیں‘ اس حوالے سے امریکہ برابر کا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ امداد کی معطلی دو طرفہ باہمی سکیورٹی تعاون اور علاقائی امن کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو متاثر کرے گی۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ارادوں پر شکوک و شبہات کا اظہار امن‘ استحکام اور خطہ کے مشترکہ مقاصد کے لئے اچھا نہیں ہے۔
پاکستان میں یہ انتخابات کا سال ہے۔ سیاسی جذبات کے ابھار کا موسم اڑھائی ماہ بعد‘ مارچ میں شروع ہو جائے گا۔ احتجاج اور افراتفری کی صورتحال کے نتیجے میں کاغذات نامزدگی کے فارم سے ختم نبوتؐ کے حوالے سے حلف نامے کو حذف کرنے والے سازشی مہرے کو بے نقاب ہونا ہی ہے اور سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں کا احتساب بھی الیکشن سے پہلے ہی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ حال ہی میں کئی باتیں ایسی ہوئی ہیں‘ جن کے اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہو جائیں گے اور شاید کافی دیر برقرار رہیں۔ 
یہ بات واضح ہے کہ 2018ء کا آغاز گھن گرج کے ساتھ ہوا ہے اور میرا خیال یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی سبکدوشی سے اس گھن گرج کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے حالات بہتر نہیں۔ تین روز تک سعودی عرب میں شاہ سلمان سے ملاقات کے منتظر رہنے کے بعد بالآخر ولی عہد سے انہیں صبح 3 بجے ملاقات کے لئے طلب کیا گیا‘ اور مستند ذرائع کے مطابق ٹھیک بارہ منٹ کے بعد انہیں فارغ کر دیا گیا۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے حوالے سے نواز شریف صاحب کے ستارے گردش میں ہیں۔ علاوہ ازیں نواز شریف پارٹی کا فوکس ملکی معاملات میں نہیں رہا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان سے نااہل ہونے کے بعد اپنی اربوں روپے کی دولت پر پردہ ڈالنے کے حوالے سے وہ غیر ملکی طاقتوں سے ریلیف لینے کے لئے ملک کی سلامتی کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی ادارے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف مہم میں دی گئی قربانیوں کی قدر کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکی ہائی کمانڈ جنرل باجوہ سے ملتی رہی اور ان کی ستائش کرتی ہوئی نظر آتی رہی تھی۔ ٹرمپ کے اچانک حالیہ ٹویٹ کے پس پردہ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ملک کے میر صادقوں اور میر جعفروں کے چہرے بھی آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کچھ اور لوگوں کے چہرے بھی واضح طور پر پہچانے جا سکتے ہیں۔ ان کے چہروں پر اکتاہٹ نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے محرکات یہ ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ملک پر گرفت ڈھیلی ہے اور عملی طور پر تین وزیر اعظم ملک کا کاروبار چلاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ یہ نواز شریف، شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس تکون کی وجہ سے ملکی نظام زمین بوس ہو چکا ہے۔ 
ان حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے 68 صفحات پر مشتمل جو نئی سکیورٹی پالیسی جاری کی ہے‘ اس کا مرکزی ہدف شمالی کوریا، چین‘ روس، ایران اور پاکستان ہیں۔ امریکہ نے وارننگ دی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر اپنے اہداف پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے۔ اسی کو سرجیکل سٹرائیک کہتے ہیں۔ اسی کی طرف چند ماہ پیشتر چوہدری نثار علی خان ہلکا سا اشارہ کر چکے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر ان حالات کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے ہی ملک کی سیاسی سمت کا تعین ہونا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ انتظامیہ ہو یا کوئی اور‘ ہمارے احکامات پر سب کو عمل کرنا ہو گا۔ ان حالات میں میری ناقص رائے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 5 اور آرٹیکل 190 اور اس سے پیشتر آرٹیکل 183(3) کا نفاذ ہی ملک کو خطرات کے بھنور سے نکال سکتا ہے۔
میرا یہ بھی خیال ہے کہ اگر امریکہ کو یہ محسوس ہوا کہ پاکستان پر اس کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے یا ہوتا جا رہا ہے‘ تو وہ افغانستان اور بھارت کے ذریعے ناپسندیدہ اقدامات کر سکتا ہے‘ جبکہ افغانستان کی جانب سے بھی کوئی ایڈونچر کیا جا سکتا ہے۔ اس اندیشے کو نظر انداز کرنا مشکلات کا باعث بنے گا۔ ان حالات میں مجھے الیکشن 2018ء ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ اگر حالات بہتر اور مستحکم ہو گئے‘ تو الیکشن ہوں گے‘ لیکن اگر یہی صورتحال جاری رہی اور اس میں کوئی مثبت تبدیلی نہ آئی تو پھر یہاں الیکشن کرانا ممکن نہیں رہے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر 33 ارب ڈالر امداد کے حوالے سے دھوکا دہی کے الزامات لگائے ہیں جس کا ایک جواب ہمارے پاس موجود ہے اور وہ یہ کہ ہم آڈٹ کروانے کی پیش کش کر سکتے ہیں اور اس پر اپنا تجزیہ بھی پیش کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ یہ بات کی جا سکتی ہے کہ اس کے کنٹینروں کی وجہ سے ہماری سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان کا بھی حساب لگایا جائے۔ اس پر میرا تبصرہ یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا آڈٹ یو ایس ہیلپ کمیشن سے کروائیں، تمام حقائق آشکار ہو جائیں گے۔ امریکہ نے براہ راست غیر ملکی این جی اوز کو فنڈز فراہم کئے تاکہ امریکی خارجہ پالیسی کو تقویت دی جائے اور دنیا بھر میں امریکہ کا ایک مثبت چہرہ دکھایا جا سکے مگر امریکہ اپنے مذموم عزائم میں بری طرح ناکام ہوا۔
میری کھوج یہ ہے کہ کیری لوگر بل کے ذریعے کچھ میڈیا ہاؤسز، این جی اوز اور تھنک ٹینکس کو تقریباً 70 ارب روپے کی امداد جاری کی گئی تھی۔ اس کا بھی حساب ہونا چاہئے۔ اسے پاکستان کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ حکومت پاکستان نیب کے ذریعے ان تمام این جی اوز کو تفتیش کا حصہ بنائے جو امریکہ سے فنڈوصول کرتی رہی ہیں تاکہ امریکی امداد کے حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
اس معاملے پر یورپی یونین سے بھی آزادانہ تحقیقات کروائی جا سکتی ہیں جبکہ اقوام متحدہ بھی اس میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ملیحہ لودھی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی حقیقی ترجمانی کریں تاکہ اصل صورتحال عالمی برادری پر واضح ہو سکے۔
میری اطلاع یہ بھی ہے کہ ابھی حال ہی میں یو ایس ایڈ نے رولز آف بزنس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک غیر ملکی این جی اوز کی وساطت سے آئندہ انتخابات کی مانیٹرنگ کروانے کے لئے کروڑوں ڈالر کی امداد تقسیم کی ہے اور اس غیر ملکی تنظیم کے ذریعے پاکستان کی غیر سرکاری تنظیموں میں فنڈز تقسیم کئے جانے کی بھی منصوبہ بندی ہو رہی ہے تاکہ پاکستان کے الیکشن پر اثر انداز ہوا جا سکے؛ لہٰذا وزیر خارجہ ان تمام امریکی امداد پر، جو اس وقت این جی اوز کے ذریعے گردش کر رہی ہیں، فوری پابندی عائد کریں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ایسی تمام غیر سرکاری تنظیموں کو الیکشن تک رسائی نہ دے جیسا کہ بھارت نے آج تک یو ایس ایڈ اور یو این ڈی پی کو اپنے الیکشن مانیٹر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ امریکہ بھی اپنے الیکشن میں کسی کو مبصرین کی حیثیت سے مانیٹرنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان بھی یہ اجازت نہ دے‘ کیونکہ ایسی تنظیمیں اپنے آقاؤں کے اشاروں پر الیکشن میں انتشار، خلفشار اور غیر یقینی کی فضا پیدا کرتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں