"KDC" (space) message & send to 7575

بلوچستان کا بحران اور قومی سیاست

بلوچستان کے (سابق) وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی کاکردگی سے ناخوش صوبائی ارکانِ اسمبلی نے ان سے علیحدگی کا فیصلہ کر کے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا اعلان کیا مگر اس سے قبل ہی وہ (وزیراعلیٰ بلوچستان) مستعفی ہو گئے۔ کچھ لوگ اس سارے منظر نامے کو مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ اس کا سینیٹ کے انتخابات سے کوئی آئینی تعلق نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ خفیہ طاقتیں سینیٹ کے انتخابات کو غیر یقینی بنا رہی ہیں، جبکہ حکومت کے لئے اپنی آئینی مدت کی تکمیل میں بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان کے یہ خدشات بے جواز محسوس ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ بین السطور میں عسکری قیادت پر تنقید کر رہے ہیں اور یہی وتیرہ نواز شریف نے اختیار کر رکھا ہے۔ میرے خیال میں قاعدے کے مطابق سینیٹ الیکشن کا انعقاد آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق بروقت ہو جائے گا اور سینیٹ کے باقی ماندہ اراکان کا انتخاب‘ اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد کروانے میں آئینی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کی معیاد کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت کروانے کا مجاز ہے، لہٰذا قانون ساز اسمبلی کے معزز ارکان ابہام کی فضا پیدا کرنے سے گریز کریں۔ جن دانشوروں کو کیری لوگر بل کے تحت لاکھوں ڈالر دیئے گئے‘ ان کی ذہنی تخلیق یہی ہے کہ سیاسی بحران کے پس پردہ غیر جمہوری قوتوں کی کار فرمائی سے سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد ناممکن دکھایا جائے۔ ایسے مفروضوں کو آئین نے مسترد کر رکھا ہے اور سینیٹ کے الیکشن غالباً 2 یا 5 مارچ کو ہو جائیں گے اور شیڈول بھی آئین و قانون کے مطابق 12 فروری کے لگ بھگ جاری ہونے کے امکانات ہیں۔ میرے خیال میں نواب ثناء اللہ کے مستعفی ہونے کے بعد بھی ان کے خلاف مہم جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ ان کو ڈاکٹر عشرت العباد کی طرز پر جلا وطنی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے۔ میری اطلاع یہ ہے کہ ان کے خاندان میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ میری نواب ثناء اللہ زہری اور اسرار اللہ سے نیاز مندی رہی ہے اور ان کو آگے لانے والی قوت سے بھی میں بخوبی واقف ہوں۔ اس قبیلے کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ محب وطن قبیلہ ہے۔ ظفر اللہ جمالی اور زہری قبیلہ بلوچستان میں پاکستان کے حامی رہے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں بشمول نواز شریف کو مفروضوں پر قوم میں انتشار و خلفشار کی فضا پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ امریکی امداد کی بندش سے پاکستان کے کئی اہم منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کی صورت حال بھارت اور افغانستان نے خراب کر رکھی ہے، سرحدیں مسلسل بھارتی اور افغان شر پسندوں کی زد میں ہیں اور بارڈر گرم ہونے سے پوری فوج متحرک ہو گئی ہے، ریڈ الرٹ کی سی کیفیت ہے، ایسی ہی صورتحال سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا اور مشرق وسطیٰ کی معیشتوں کو نقصان پہنچنے سے عراق، شام اور لیبیا میں عسکری قوت اب ناپید ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں نواز شریف، ان کے نظریاتی اتحادی اور ان کے ہم خیال میڈیا ہائوسز طاقتور حلقوں کے بارے میں تاثرات پھیلا رہے ہیں کہ ملک ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لئے آئینی و جمہوری نظام سے محروم ہونے والا ہے۔ ان کا وتیرہ یہ ہے کہ مایوسی، احساس محرومی اور علیحدگی پسندوں کے رجحانات کو فروغ دیا جائے، اس کے نتیجہ میں ملک کی بقا و سلامتی دائو پر لگنے کے خدشات پیدا کئے جائیں اور ملک کی بے اطمینانی اور مشکلات میں اضافہ کر کے اپنے مذموم عزائم پورے کئے جائیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کی رو سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے اور سینیٹ کے الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہو جائیں گے۔ 
دوسری جانب پاکستان کے قرب و جوار میں صف بندی ہو رہی ہے اور امریکہ مخالف اتحاد بن رہا ہے، اس میں پاکستان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ چین، روس، ایران، قطر اور مشرق وسطیٰ کی ابھرتی ہوئی معیشتیں امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف نہ صرف صف آراء ہو رہی ہیں بلکہ اپنا معاشی ورلڈ آرڈر بھی نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ صف بندی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان اگر اس صف بندی میں شامل نہیں ہوتا تو نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا بلاک نہیں بن سکتا۔ پاکستان اس وقت مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حقیقی لیڈر شپ کا فقدان ہے اور ہمارے ابھرتے ہوئے سیاسی رہنما ازدواجی معاملات میں گھرے ہوئے ہیں، ان کی عالمی حیثیت کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کے سکینڈلز سے رابرٹ کینیڈی خاندان ہمیشہ کے لئے سیاست کے محور سے باہر ہو گیا تھا۔ پاکستان امریکہ سے محاذ آرائی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر امریکہ نے شمالی کوریا کو ڈرانے کے لئے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی تو ہمارے اتحادی ممالک کا رویہ 1971ء کی مانند ہو گا، عملی طور پر وہ آگے نہیں بڑھیں گے۔ امریکہ پاکستان میں مزید افراتفری پھیلانا چاہتا ہے‘ جس کی طرف نثار علی خان نے اشارہ کیا تھا، لہٰذا پاکستان کے اہم رہنمائوں کو تدبر سے کام لینا ہوگا بلکہ ملک میں داخلی سطح پر سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے مابین تضادات کے تاثر کو زائل کرنا ہوگا جو ان دنوں پھیلایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی مذہبی و دینی جماعتوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہمارے ملک کو انتہائی نازک موڑ پر لے آئی ہیں۔ اگر رانا ثناء اللہ کو برطرف کیا جاتا ہے تو اس سے سانحہ ماڈل ٹائون کے مظلوموں کو بھی صبر مل جائے گا اور تحریک لبیک یا رسول اللہ اور پیر حمید الدین سیالوی کی تحریک کے شعلے بھی آگے نہیں بڑھیں گے۔ راجہ ظفر الحق بھی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ کو شائع کر کے ختم نبوتؐ کے فارم میں تحریف کرنے والوں کو قوم کے سامنے پیش کریں کیونکہ وزارتِ قانون کے ریکارڈ کو نذر آتش کرانے سے معاملات کو نہیں دبایا جا سکتا۔
عظیم تر روایات کے حامل اور 65ء کی جنگ میں اپنی شجاعت کا لوہا منوانے والے، پاکستان ایئر فورس کی آبیاری کرنے اور بے داغ قومی سیاست کے افق پر چمکنے والی عظیم شخصیت‘ ایئر مارشل اصغر خان 97 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے سے 5 جنوری کو رحلت فرما گئے۔ ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے لفظوں سے لکھا جائے گا۔ مرحوم اصغر خان ذوالفقار علی بھٹو کے ایک اہم سیاسی حریف ثابت ہوئے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف مسٹر بھٹو کا ساتھ دیا‘ جبکہ مسٹر بھٹو ساہیوال جیل میں نظر بند تھے۔ اصغر خان کو سیاست میں وارد کروانے میں لاہور کے ایک اخبار کا بڑا عمل دخل رہا۔ جب مذکورہ اخبار نے ان کے سیاسی و قومی مضامین کو قسط وار شائع کرنا شروع کیا تھا تو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں چونک اٹھی تھیں۔ اسی دوران میں نے حنیف رامے صاحب کو راضی کیا کہ ایئر مارشل اصغر خان سے ایبٹ آباد میں ملاقات کی جائے۔ ان دنوں میں پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اس فیڈریشن کے سر پرستِ اعلیٰ تھے۔ حنیف رامے صاحب نے ڈاکٹر مبشر حسن، رسول بخش تالپور، حیات شیر پائو اور نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی سے مشاورت کے بعد ایبٹ آباد میں اصغر خان سے ملاقات کی اور ان کو مسٹر بھٹو کی تحریک کو آگے چلانے پر آمادہ کیا۔ حنیف رامے کی دعوت پر ایئر مارشل اصغر خان لاہور آئے اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک کو آگے بڑھایا۔ اسی دوران انہوں نے مشرقی پاکستان کا دورہ بھی کیا ۔مشرقی پاکستان کے عوام نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ایئر مارشل اصغر خان مسٹر بھٹو کی حکومت کے خلاف بننے والے قومی اتحاد کا حصہ بنے۔ دراصل اس کے پیچھے ان کی جمہوری اور اصولوں پر مبنی سوچ تھی اور یہ سوچ ان کی زندگی کے آخری دن تک ان کے ساتھ رہی۔ ایئر مارشل اصغر خان کو اپنی زندگی میں ہی جوان بیٹے عمر اصغر خان کی پراسرار موت، دو بھائیوں پائلٹ آفیسر آصف خان اور سکواڈرن لیڈر خالد کی پاکستان کے لئے دی گئی جانوں کی قربانیوں جیسے صدمات بھی برداشت کرنا پڑے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی جانب سے انتخابات کے التو اء کو لاہور ہائیکورٹ میں 1980ء کے اوائل میں چیلنج کیا جس کے نتیجہ میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشتاق حسین جو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی تھے‘ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میری مرحوم اصغر خان سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ 1990ء کے انتخابات کے موقع پر ایئر مارشل اصغر خان نے محترمہ بے نظیر بھٹوکے ساتھ معاہدہ بھی کیا تھا جس کا مقصد جمہوری نظام کو مضبوط کرنا تھا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں