"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ بندیاں: ماہرین کی ٹیم پر نظر رکھیں!

نواب ثناء اللہ زہری کے مستعفی ہونے کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی میں رائے شماری کی نوبت نہیں آئی‘ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے 21 ارکان میں سے 19 نے میر عبدالقدوس بزنجو کے حق میں ووٹ دے کر نواز شریف کی پالیسیوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ اب بلوچستان اسمبلی کے تحلیل ہونے اور یوں سینیٹ الیکشن میں رکاوٹ پڑنے کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن اب یہ خطرات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ ماہ استعفوں کے ذریعے سندھ اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرانے کی کوشش کی جائے گی‘ جبکہ پنجاب میں حکومت مخالف تحریک کے تحت پنجاب اسمبلی کے با ضمیر اور با شعور ارکان شہباز شریف کی پالیسیوں سے نالاں ہو کر ان کے خلاف ضمیر کی بیداری کے نام پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اور پرویز رشید، دانیال عزیز، طلال چوہدری، خواجہ آصف، آصف کرمانی ‘ مریم صفدر اور نواز شریف کو جاتی امرا تک محدود کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پرویز رشید کو نریندر مودی کا ساتھی اور ڈان لیکس کا مرکزی کردار قرار دے کر نواز لیگ کو بحرانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے‘ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ بلوچستان میں تبدیلی کے تانے بانے مشرقی پاکستان سے ملا کر وفاق کو کمزور اور نواز لیگ کو بند گلی میں کھڑا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک لبیک یا رسول اللہ، پیر حمیدالدین سیالوی اور ملی مسلم لیگ کی سٹریٹ پاور کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر طاہرالقادری اپنے مورچے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو یہ جماعتیں اس خلا کو پُر کر دیں گی۔ اس تناظر میں آج قوم کو داخلی اور بیرونی محاذوں پر جو سنگین خطرات درپیش ہیں‘ ان میں جمہوریت کے راستے سے ہٹ جانے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں اور میرے خیال میں یہی نواز شریف صاحب کی پالیسی ہے۔ نواز شریف صاحب کو ادراک ہی نہیں کہ ان کے چند ساتھی ملک کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ اپنی اربوں ڈالر کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے ریاستی اداروں سے محاذ آرائی پر کمربستہ ہیں۔ ان حالات میں عبوری سیٹ اپ ایسا ہونا چاہئے جو عوام کی سوچ اور سیاسی شعور کو پاکستان کے آئین کی بالادستی تک پہنچائے۔ میرے خیال میں نئے انتخابات کے موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر ہی سے غیر جانبدارانہ اور راست باز قیادت سامنے آئے گی اور نواز خاندان ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ 
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے نئی حلقہ بندیوں کے کام میں سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے صورتحال مشکل دکھائی دیتی ہے کہ کس طرح مختلف اضلاع میں نئی نشستوں کی تخلیق کے لئے آبادی کو تقسیم کیا جائے۔ انتخابی عمل میں ایسے مسائل شاید اس لئے کھڑے کئے جا رہے ہیں کہ طے شدہ حلقہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر چاروں صوبوں میں ان پارٹیوں کی سیاسی خواہشات اور منشا کے مطابق اضلاع کو جوڑ کر مزید نشستوں کی تخلیق کرا دی جائے۔ حکمران جماعت چاہتی ہے کہ قومی اسمبلی کی بعض نشستیں سندھ اور خیبر پختونخوا میں شہری علاقوں سے دیہی علاقوں میں اور پنجاب اور بلوچستان میں دیہی علاقے سے شہری علاقوں میں منتقل کی جائیں۔ اہم سیاسی جماعتوں کے اہم راہنما اپنے مضبوط قلعوں کو حلقوں سے نکالنے اور دوسری نشستوں میں شامل کرنے کے امکان پر الیکشن کمیشن پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ حساس مسئلے میں معاونت کے لئے یو این ڈی پی کے ماہرین سے بھی معاونت حاصل کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن بادی النظر میں انٹرنیشنل فائونڈیشن فار الیکٹورل سسٹم کے سابق ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر چکا ہے، جس سے حلقہ بندیوں میں ابہام پیدا ہونے کے امکانات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی طرح یو این ڈی پی نے اپنی پسندیدہ این جی اوز کے ذریعے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارد گرد گھیرا ڈال رکھا ہے کیونکہ کچھ عالمی ادارے تربیت اور مانیٹرنگ کے نام پر الیکشن کمیشن کی معاونت کر رہے ہیں۔ اور اسی کی آڑ میں ان غیر ملکی اداروں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دبائو ڈالنے کی سعی کی ہے۔ علاوہ ازیں حلقہ بندیوں کے لئے الیکشن کمیشن کے افسران کو یو این ڈی پی کے ماہرین نے ہی ٹریننگ دی ہے‘ جو ہمارے جغرافیائی یونٹ سے نابلد ہیں اور لگتا یہ ہے کہ مردم شماری کی طرح حلقہ بندیاں بھی متنازع بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حلقہ بندیوں کی اہمیت و افادیت کا مکمل ادراک ہے۔ انہیں غیر ملکی ماہرین اور نچلی سطح کے افسران پر کڑی نگاہ رکھنا ہو گی، اور ان سے ایمانداری، دیانتداری اور غیر جانبداری کا حلف لینا ہو گا۔ ان پر نگاہ رکھنے کے لئے ملکی ایجنسی کی خدمات حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ الیکشن کمیشن پنجاب میں فیصل آباد، نارووال، اوکاڑہ اور جھنگ کی چار نشستیں شہری علاقوں کو منتقل کرے گا۔ بلوچستان کے 15 اضلاع قومی اسمبلی کی 7 نشستوں سے ملا رہا ہے۔ پشاور، سوات‘ کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی حلقہ بندیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اندیشہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے عمل میں بندر بانٹ ہونے سے ملک کا انتخابی ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے گا اور نگران حکومت اپنی ساکھ بچانے کے لئے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار قرار دے دے گی۔
محکمہ مردم شماری نے تکنیکی طور پر ایسے ڈیٹا کو یکجا کیا ہے جس سے لاہور کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں مزید پانچ کا اضافہ ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی موجودہ نشستیں 297 ہیں اور صوبے کی کل آبادی 11 کروڑ سے تقسیم کرنے کے بعد 5 نشستوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح فی نشست پونے چار لاکھ افراد پر مشتمل ہو گی۔ 
نئی حلقہ بندیاں یقینا سیاسی منظرنامے پر بھی اثر انداز ہوں گی۔ اس تناظر میں پنجاب کے دیگر اضلاع بشمول راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور صوبائی اسمبلی میں مزید نشستیں حاصل کر سکیں گے۔ راولپنڈی کی صوبائی اسمبلی کی 14 نشستیں ہیں اور آبادی 54 لاکھ ہے اور اس وجہ سے راولپنڈی شہر کو ایک اضافی نشست ملے گی۔ دوسری طرف مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور ایک ایک نشست لے کر بالترتیب بارہ، آٹھ اور پانچ نشستوں پر مشتمل ہو جائیں گے۔ نئی حلقہ بندیوں سے پنجاب کے آٹھ اضلاع گجرات، فیصل آباد، جہلم، منڈی بہائوالدین، اوکاڑہ، خوشاب، سرگودھا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی مجموعی طور پر 9 نشستیں کم ہو رہی ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں گجرات کی 2 نشستیں کم کرکے 6، فیصل آباد کی ایک کم ہو کر کل نشستیں 21 اور جہلم کی بھی ایک نشست کم ہو کر 3 رہ جائیں گی۔ اسی طرح آبادی کا تناسب کم ہونے سے منڈی بہائوالدین‘ اوکاڑہ‘ خوشاب، سرگودھا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک ایک نشست کم ہو کر بالترتیب پانچ، آٹھ، تین، گیارہ اور چھ رہ جائیں گی۔ متنازع مردم شماری کے مطابق سندھ کی کل آبادی 4 کروڑ 80 لاکھ ہے اور کوٹے کے اعتبار سے فی نشست 3 لاکھ 70 ہزار پر مشتمل ہے، تاہم صوبائی اسمبلی میں سندھ کی کل نشستیں 130 ہیں۔6 اضلاع پر مشتمل کراچی کی صوبائی نشستوں کی تعداد 42 ہے تاہم مجموعی کوٹہ کی نسبت سے کراچی کو ایک اضافی نشست مل جانی چاہئے۔ کراچی وسطی کا کل مجموعی حصہ 8 اعشاریہ 06، کراچی مشرقی کا 7.89‘ کراچی غربی 10.62‘ کورنگی 6.67‘ اور لانڈھی 4.45 ہونے سے مجموعی طور پر صوبائی اسمبلی میں ایک نشست زائد ملنے کا امکان ہے۔ گھوٹکی اور خیرپور میں بھی صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست میں اضافے کا امکان ہے جس کے بعد بالترتیب ان کی نشستیں 3 اور 6 ہو جائیں گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ماضی کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ماہرین کی ٹیم کو اسلام آباد تک ہی محدود رکھے‘ کیونکہ ان کو اپنے اپنے صوبے میں یہ قومی اہمیت کی ذمہ داری سونپی گئی تو ان کی نگرانی کے لئے موثر انتظامی کنٹرول مشکل ہو جائے گا۔ معزز ارکان کمیشن کے لئے یہ نیا تجربہ ہے لیکن سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کو حلقہ بندیوں کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہے۔اس لئے امید ہے یہ کام احسن طریقے سے مکمل ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں