"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت‘ نواز شریف اور وطن کارڈ

17 جنوری 2018ء کو ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائون کے خلاف احتجاجی جلسے کا اہتمام کیا۔ یہ احتجاجی جلسہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اگست 2014ء کے دھرنے سے زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو سکا۔ احتجاجی جلسے سے قبل حالات تبدیل ہو گئے اور آصف علی زرداری کی حکمتِ عملی سے اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف اپوزیشن کا کوئی سیاسی اتحاد آئندہ نہیں بن سکے گا۔ ویسے بھی اب اسمبلیوں سے استعفے دینے اور حکومت کو گرانے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ یہ وقت 31 اگست 2014ء کو تھا۔ 2016ء میں بھی اگر ایسا ہو جاتا تو اپوزیشن جماعتوں کو فائدہ ہوتا۔ عمران خان نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوش کرانے میں تو کامیاب رہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں گرا سکے۔ معزز عدالت عظمیٰ کے پانچ فاضل جج صاحبان نے نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت جیل بھجوانے کے معاملے میں نرم رویہ رکھا اور ان کی قسمت کا فیصلہ احتساب کورٹ کو بھیجتے ہوئے چھ ماہ کی مدت کا تعین کر دیا اور احتساب کورٹ کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کو نگران بھی مقرر کر دیا، لیکن سابق وزیر اعظم نے اپنی سیاسی صلاحیتوں اور وفاق اور صوبوں میں اپنی حکومتوں سے فائدے اٹھائے اور احتساب کورٹ نے بھی سست روی دکھائی۔ حکومت نے نواز شریف کو شیڈ دے رکھا ہے ۔
آصف علی زرداری پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لئے جگہ پیدا کرنے کی غرض سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ حکومت گرانے کے حق میں شاید نہیں ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن کی اخلاقی حمایت ضرور حاصل کی ہے لیکن متحدہ اپوزیشن کے رہنمائوں نے اپنے ورکرز کو متحرک نہیں کیا اور زبانی دعوے کرتے رہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد خود متحرک ہو کر تحریک لبیک کی طرز پر صوبائی اسمبلی کے سامنے ڈیرہ ڈال لیتے تو شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو مستعفی ہونا پڑتا، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری نواب زادہ نصراللہ بننے کے لئے اپوزیشن کے رہنمائوں کو اکٹھا کرنے میں مصروف ہو گئے جبکہ اندرونِ خانہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مابین مذاکرات ہوتے رہے۔ اور اب وہ اس آڑ میں فریال تالپور کو سینیٹ کا چیئرمین بنوانے کے مشن میں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس 17 جنوری کو لاہور میں اپوزیشن کا اجتماع اپنے معکوس نتائج کی وجہ سے عام انتخابات میں بھی اپوزیشن جماعتوں کی سیاست پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قومی معاملات میں پارلیمنٹ کا کردار ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں جس قدر فعال اور مؤثر ہوتا ہے‘ ہم ابھی اس معیار سے بہت دور ہیں کیونکہ حکمرانوں کی جانب سے پارلیمنٹ کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا استحقاق ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین نے آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت مستعفی ہونے والے ارکانِ پارلیمنٹ کی توقیر کی اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گئے۔ عمران خان بھی جہانگیر ترین اور اسحاق ڈارکے درمیان خفیہ مذاکرات کے بعد قومی اسمبلی میں سر جھکاتے ہوئے چلے گئے ‘ خواجہ آصف کے طنزیہ ریمارکس پر بھی شدید ردعمل کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے سرنگو ں ہوگئے، اور قومی اسمبلی کی تمام مراعات سے مستفید ہوتے رہے۔ اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان الطاف حسین کی ایما پر قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں سے مستعفی ہو گئے۔ ان کے استعفے بھی آئین و قانون کے مطابق تھے اور تب ایک نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں الطاف حسین نے میرے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے استعفے اصولی طور پر منظور ہو چکے ہیں۔ اگر ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے استعفے منظور کر لئے جاتے تو پارلیمنٹ کی یوں بے توقیری نہ ہوتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے دو ٹوک الفاظ میں عندیہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ ہی ملک کا اعلیٰ ترین اور اہم ادارہ ہے۔ بلاشبہ انہوں نے جمہوری نظام کی ایک حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے جاری ہیلتھ کارڈ پر نااہل قرار دئیے گئے نواز شریف کی تصویر شائع کرنا بہت ہی افسوسناک ہے۔ پنجاب حکومت نے ان کی تشہیر کے لئے سرکاری وسائل کا استعمال کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی توہین کی ہے اور ایک طرح سے انتخابات سے پہلے دھاندلی کا آغاز کر دیا ہے کیونکہ ہیلتھ کارڈ ہر فیملی کو دیا جا رہا ہے جو کہ نواز شریف کے لئے بیلٹ پیپرز کی مانند ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس حرکت کا نوٹس لینا چاہئے۔ اپوزیشن جماعتوں کو پنجاب حکومت کی جانب سے ہیلتھ کارڈ پر نواز شریف‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صادق و امین نہیں رہے، کی تصویر لگانے پر ہر فورم پر آواز اٹھانا ہو گی۔
ملک میں‘ نہ تو صحیح معنوں میں جمہوریت آگے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی اقتدار متوسط طبقے کے پاس جانے کی امید ہے، کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے انتخابی سسٹم، ووٹروں کو ترغیب، لالچ، خوف و ہراس اور برادری کے دبائو کے نتیجہ میں آئندہ انتخابات بھی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں گے۔ پارلیمنٹیرین نے نہ تو عوام کے مفادات کا کبھی تحفظ کیا ہے اور نہ ہی ان کے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔ جب نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے جیسے قانون پاس کئے جائیں گے تو پھر قومی اسمبلی کے فلور پر پارلیمنٹیرین کا احتجاج ٹھیک نہیں کہ پارلیمنٹ کی توہین کی گئی ہے۔ اب عوام کو آئندہ انتخابات کی طرف دیکھنا ہوگا، اگر وہ مفاد پرست، نااہل، بے ضمیر اور جغرافیائی لکیروں کا مذاق اڑانے والوں کو منتخب کریں گے تو پارلیمنٹ کی مزید بے توقیری ہوگی۔
شریف برادران کے لئے اگلے دو ہفتے بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بطورِ پارٹی سربراہ‘ نااہلیت کا فیصلہ اسی ہفتے متوقع ہے کیونکہ میرے خیال میں حکمران جماعت نے آئین کے آرٹیکل 17، 62 اور 63 کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے اور یہ عمل الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 203 آئین سے متصادم ہے۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف کے پارٹی کی سر براہی سے ممکنہ طور پر نااہل ہونے کے بعد‘ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت چوہدری نثار علی کے ساتھ مل سکتی ہے اور پھر پنجاب اسمبلی میں بھی شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور اس کے نتیجہ میں سینیٹ کے جو الیکشن ہوں گے، ان کا شریف برادران سے تعلق نہیں ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کرپٹ عناصر کے خروج کے بعد دیانت دار قیادت کو آگے لانے کے لئے سیاست کا رخ تبدیل کیا جائے کیونکہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت جتنی کرپشن ہے اتنی ملک کی پوری تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ سیاست اب ڈالروں کا کھیل اور سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کی سلطنت بن گئی ہیں۔ ان افراد یا خاندانوں کے پروٹوکول شاہی خاندانوں جیسے ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں نگران حکومت کے ذریعے ہی شاہی خاندان کا احتساب ممکن ہے اور سپریم کورٹ ہی فیڈریشن کو بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اپنی بے پناہ دولت،ہم خیال بیورو کریسی اور پنجاب کی ڈھائی لاکھ پولیس کے زور پہ اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے اور اگر وہ دوبارہ حکومت بنا لیتی ہے تو صورتحال آج کی نسبت خاصی مختلف ہو گی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں