"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے انتخابات کیسے ہونے چاہئیں؟

مارچ سے پہلے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بارے میں ذاتی خواہشات پر مبنی افواہوں سے پیدا ہونے والی بے یقینی کی فضا میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات کے شیڈول کا بروقت اعلان ملک میں آئین کی حکمرانی کی جانب ایک ایسا خوش آئند اقدام ہے‘ جس کا اندرون ہی نہیں بیرون ملک بھی خیر مقدم کیا جا رہا ہے‘ اور دنیا بھر میں ایک جمہوری ملک کے طور پر پاکستان کا مثبت تصور اجاگر ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے 104 رکن‘ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے 52 منتخب ارکان 11 مارچ کو اپنی چھ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہو جائیں گے‘ جن کی جگہ قومی و صوبائی اسمبلیاں نئے ارکان کا انتخاب کریں گی‘ جو 12 مارچ کو حلف اٹھائیں گے۔ حکومتی اور سیاسی حلقوں میں یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ موجودہ وفاقی حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد پوری نہیں کر پائے گی، سینیٹ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے‘ نہ عام انتخابات، لیکن چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے سینیٹ کے انتخابات کے لئے 3 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ شیڈول کے مطابق امیدوار 4 سے 6 فروری تک ریٹرننگ افسران کو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گے۔ 9 فروری کو ان کی جانچ پڑتال ہو گی اور اہل امیدواروں کی فہرست 15 فروری کو جاری کر دی جائے گی۔
انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے چاروں صوبوں، فاٹا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں کی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے 27 میں سے 9، پیپلز پارٹی کے 26 میں سے 18 اور تحریک انصاف کے 7 میں سے ایک رکن‘ مقررہ تاریخ کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ سینیٹ میں ہر صوبے سے 23، فاٹا سے8 اور اسلام آباد سے 4 سینیٹرز منتخب کئے جاتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے نیک شگون ہے۔ بے یقینی اور شکوک و شبہات کی فضا ملک اور قوم کے لئے خطرناک تھی۔ قومی اسمبلی کے انتخابات سے متعلق ابہام حلقہ بندیوں کے بروقت مکمل ہونے سے دور ہو جائے گا اور آئین پاکستان کی بالادستی سے قوم کا اعتماد مستحکم ہو گا۔ اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان کی جمہوری، اقتصادی اور سماجی ترقی کا مستقبل آئین کی پیروی میں مضمر ہے۔ آئین پر جتنا عمل کیا جائے گا ملک اور قوم کے مستقبل کے بارے میں اتنا ہی اعتماد اور یقین بڑھے گا۔ پاکستان کی تاریخ آئین و دستور کے حوالے سے قابل رشک نہیں رہی۔ 1947ء سے 1956ء تک یہ ملک بے آئین رہا۔ 1973ء کا آئین بھی نظریۂ ضرورت کے تحت 13 اگست 1973 کو نافذ کیا گیا تھا کیونکہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد قوم سکتے میں تھی اور عوام کو آئین کے بارے میں گہرا ادراک نہیں ہو سکا تھا۔ باقی ماندہ چاروں صوبوں کو یکجا کرکے مملکت پاکستان کا قیام بھی مارشل لاء آرڈر 19 دسمبر 1971ء کے تحت ہی عمل میں آیا تھا۔
اصولی طور پر مغربی پاکستان سے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 137 اور مشرقی پاکستان سے 163 تھی‘ لہٰذا اقلیت نے اکثریت اختیار کر لی تھی‘ اور انہی ارکان سے آئین ساز اسمبلی نے آئین مرتب کروایا۔ حالانکہ قوم نے متحدہ پاکستان کے لئے مینڈیٹ دیا تھا اور ان حالات میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اقلیتی ارکان نے جو آئین نافذ کیا، اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ اسی لئے عوام نے آئین کے معطل ہونے پر شدید ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اس موقع پر یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ سینیٹ کے انتخابات صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے چاہئیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت اس بار بہت زیادہ ہو گی‘ کیونکہ یہ الیکشن کا سال ہے اور ارکان اسمبلی نے آئندہ انتخابات کے اخراجات سینیٹ کے الیکشن سے ہی پورے کرنے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ سوائے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے‘ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی آڑ میں سینیٹ کا شیڈول آنے کے بعد میرٹ کا اصول پس پشت چلا گیا ہے۔
سینیٹ الیکشن میں مداخلت 1985ء سے شروع ہو گئی تھی جب حکومتی مداخلت سے سینیٹ کو منتخب کروایا گیا اور ریٹرننگ افسران نے بھی بیلٹ پیپرز میں گڑبڑ کرکے حکومتی ارکان کو کامیاب کرایا۔ اگر اس کی تہہ میں جا کر کوئی تحقیق کرنا چاہے تو 1985ء کے سینیٹ کے الیکشن کی روداد عدالتی فیصلوں کے ذریعے معلوم کی جا سکتی ہے کہ جب ایک صوبائی الیکشن کمشنر‘ اس دھاندلی کی راہ میں رکاوٹ بنے تو راتوں رات ان کا کنٹریکٹ منسوخ کرکے‘ انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریدنگ کا آغاز فاٹا سسٹم سے ہوا۔
الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریدنگ کی روک تھام کے لئے مجھ سے ایک جامع تجویز تیار کروائی تھی۔ میں نے بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن ملک کی نمایاں سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر ممالک کے سینیٹ الیکشن کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن کی منظوری سے حکومت کو رپورٹ پیش کی تھی‘ جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 59 میں ترمیم کرکے سینیٹ کے ارکان کا انتخاب وزیر اعظم کے انتخاب کی طرز پر کروایا جائے تاکہ خفیہ انداز میں جو ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے‘ اس کا ازالہ ہو سکے۔ حکومت نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا تھا‘ حالانکہ اس وقت کے وفاقی وزیر‘ میاں رضا ربانی نے ہمارے مؤقف کی تائید کی تھی۔ اسی پس منظر میں حکومت نے جب انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی تو میں نے ماضی کے تجربات اور مارچ 2015 ء کے سینیٹ کے الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے ازالہ کے لئے یہی تجاویز جناب اسحاق ڈار اور اس وقت کے وفاقی وزیر زاہد حامد کو بھی بھجوائی تھیں‘ لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ان تجاویز کو نظر انداز کر دیا۔ پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے بھی اس اہم قومی مسئلہ کو اہمیت نہیں دی اور اب مارچ 2018ء میں سینیٹ انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے اور ووٹوں کی خرید و فروخت روپوں کی بجائے ڈالروں میں ہونے کا اندیشہ ہے۔ 
بادی النظر میں میاں رضا ربانی کو آئندہ سینیٹ کا رکن منتخب ہونے میں سیاسی، محلاتی اور دیگر عوامل کی رکاوٹ کا سامنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی صفوں میں داخل ہونے کے راستے محدود ہو چکے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک رکن بھی نہیں۔ وہ 7 نشستیں حاصل کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 8 ارکان ہیں‘ وہاں آصف علی زرداری دو یا تین سیٹیں حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ میرے مطابق یہاں پر دو ارکان کی کامیابی کے لئے راہ ہموار ہے اور جنوبی پنجاب کے ارکانِ صوبائی اسمبلی سینیٹ الیکشن میں شہباز شریف کا احتساب کریں گے جو ہمیشہ نوٹس لیتے اور تشہیر کے ذریعے حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے ارکان ہارس ٹریڈنگ میں ہمیشہ سر گرم رہے ہیں۔ 2006ئ، 2009ئ، 2012ء اور 2015ء میں یہاں حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہاں پر پیپلز پارٹی تین چار نشستیں نکالنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے‘ وہاں پر پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن برقرار رکھے گی، ممکن ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے اندر انتشار کی کیفیت سے فائدہ اٹھائے اور ایک مزید نشست حاصل کر لے۔ اسی طرح مصطفی کمال کے بھی سینیٹر بننے کے امکانات موجود ہیں۔
میاں رضا ربانی کو اگر دکھاوے کے طور پر پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دے بھی دیا تو مخصوص حکمت عملی کے تحت وہ سینیٹ کے الیکشن میں مطلوبہ کوٹہ کے مطابق ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ میرے خیال میں آصف علی زرداری‘ جو پاکستان کے اس وقت مرد آہن ہیں، ان کو آگے نہیں آنے دیں گے کیونکہ ان کو خدشہ ہے کہ اگر رضا ربانی سینیٹر منتخب ہو جاتے ہیں تو نواز شریف انہیں چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے کی پوزیشن میں ہیں۔ تحریک انصاف، ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ق) سمیت دیگر جماعتیں بھی ان کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کی حامی ہوں گی۔ لہٰذا پیپلز پارٹی حکمت عملی کے ذریعے سینیٹ میں دوبارہ اکثریت حاصل کر سکتی ہے اور اگر آصف علی زرداری سینیٹ میں اکثریت حاصل کر لیتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں ان کا ووٹ بینک حیرت انگیز حد تک بڑھ جائے گا۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں