"KDC" (space) message & send to 7575

منظر بدلنے والا ہے؟

چیف جسٹس‘ جسٹس ثاقب نثار اور سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی موجودگی میں اب نظریہ ضرورت کے تحت فیصلوں کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ حدیبیہ پیپرز کیس اور اورنج ٹرین کے معاملات کو علیحدہ رکھا جائے تو پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل محفوظ ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے ماضی جیسے فیصلے نہیں دیے جا سکتے۔ یہ درست ہے کہ جمہوری حکومتیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہیں اور یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ عوام کی جمہوری حکومتوں سے توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں‘ لیکن ان تمام ہچکولوں کے با وجود دوسری جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ اٹھارہویں آئینی ترمیم ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ سابق وزیراعظم فیڈریشن کے مفادات کے برعکس اپنی اربوں روپے کی مبینہ کرپشن چھپانے کے لئے‘ خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف اور دوسری سیاسی لیڈرشپ سیاست سے باہر ہو گئی اور اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کرنے والی سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر سکیں تو پھر یہ ترمیم خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس گمراہ کن مفروضے کو بنیاد بنا کر نواز شریف عوام کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں نہ صرف جمہوریت بلکہ پارلیمانی جمہوری نظام کو لپیٹنے کے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ عوام میں بے چینی اور اضطراب پیدا کرنے کے لئے وہ کسی کے لکھے ہوئے سکرپٹ کو پڑھ کر عوام کے سامنے صورتحال بیان کر رہے ہیں۔ سیاسی معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاق میں کوئی دوسرا جمہوری نظام چلانا بہت مشکل ہو گا۔ عوام کو ایسے مفروضوں سے کوئی سروکار نہیں جس کی پشت پر ہم خیالوں کا ٹولہ کھڑا ہو‘ کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی وجہ سے فی الحال جمہوریت کو خطرہ نہیں ہے، لیکن اگر نواز شریف کی جماعت اکثریت سے کامیاب ہو جاتی ہے تو اسی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔ وہ اس میں مزید ترامیم کی کوشش کرے گی۔ یہ ایک تجزیہ ہے اور بہت ہی سنجیدہ تجزیہ ‘ جسے فی الحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ سابق وزیراعظم کی وجہ سے جمہوریت کو خطرہ ہے اور ان کی اپنی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان کی پارٹی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اٹھائیس فروری کو وہ مقررہ مدت‘ جو پاناما کیس کے فیصلے میں دی گئی تھی‘ پوری ہونے والی ہے۔ یعنی بہت سے مقدمات کا فیصلہ سنانے کا وقت قریب آ رہا ہے اور کئی فیصلے سنائے جانے والے ہیں۔ طلال چوہدری، دانیال عزیز، خواجہ سعد رفیق،عطاء الحق قاسمی بھی احتساب کے گرداب میں ڈوبتے نظر آ رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدر کی قسمت کا فیصلہ بھی فروری کے آخری ہفتے میں آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ نواز شریف بھارتی پنجاب کے لئے پھول بکھیر رہے ہیں اور عظیم پنجاب کا خواب دیکھتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی نئی تقسیم کا خواب دیکھ رہے ہیں‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ ان کے یہ تمام خواب ماہِ رواں کے آخر تک چکنا چور ہو جائیں گے۔ نواز شریف کا مشن یہی رہا ہے کہ بلوچستان کو جانے دو، سندھ زرداریوں کی شکار گاہ بننے دو‘ خیبر پختونخوا کے لئے اسفند یار ولی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے دو۔ انہیں صرف پنجاب ہی عزیز ہے تاکہ امرتسر سے باقاعدہ سٹیل درآمد کرتے رہیں اور تجارتی روابط بڑھاتے رہیں۔ اسی خواب کی تعبیر کے لئے 1998-99ء میں واہگہ بارڈر سے جاتی امرا تک تین رویہ سڑک بنانے کے لئے وہ بے تاب تھے۔ یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اس وقت کہیں سے یہ اطلاع سننے میں آئی تھی کہ بعض پراسرار سائے رات کے اندھیرے میں سیاہ کاروں میں سیاہ پردے لگا کر امرتسر سے جاتی امرا تک جاتے دیکھے گئے‘ اور حساس ادارے موقع کی تلاش میں رہے کہ ان پراسرار سایوں کو جاتی امرا سے گرفتار کیا جائے‘ لیکن اسی دوران 12 اکتوبر 1999ء کا واقعہ پیش آ گیا اور ان سایوں تک ان کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ شنید یہی ہے کہ عظیم پنجاب کا منصوبہ اسی انداز میں زیر بحث رہا‘ جس طرح شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھارتی یونین سٹیٹ اگرتلہ میں سازش کے تانے بانے تیار کئے تھے۔ جن صاحب نے مجھے یہ اطلاع دی تھی‘ وہ آج کل صاحبِ فراش ہیں۔ ممکن ہے آغا مرتضیٰ اس پر روشنی ڈال سکیں کہ ان کے پاس اس حوالے سے بہت سا قیمتی مواد موجود ہے۔ کارگل کی جنگ کے دوران نواز شریف کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھی گئی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے حالیہ بیانیہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ آرٹیکل 184(3) کی حرکت غیر معمولی ہو گی اور اس کے نتیجہ میں آئین کے آرٹیکلز 62 اور63 بھی حرکت میں آئیں گے جس کے نتیجہ میں احتساب کا عمل شفاف اور تیز ہو گا۔ اس طرح پارلیمان کے معیاری ہونے کی شدید ترین قومی ضرورت پوری ہو گی اور صحیح قیادت‘ جو آئین کے آرٹیکل 62 پر پورا اترے گی‘ پارلیمنٹ سے حلف اٹھائے گی۔
پاکستان میں انتظامی ڈھانچہ مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ اوپر سے نیچے تک قانون کی عمل داری مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ الیکشن کی جنگ میں اداروں‘ جن کے ذریعے پولنگ سٹاف (جس کی تعداد لگ بھگ 9 لاکھ ہو گی) الیکشن کمیشن کے کنٹرول میں لایا جانا ہے‘کی پشت پر سپریم کورٹ کے کسی جج کا ہونا ریاست کے مفاد میں ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کی تاریخ زیادہ روشن نہیں رہی، اور اسی پس منظر میں جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 2013ء کے انتخابات کی مشینری سے براہ راست خطاب کیا‘ اور ان کو خطوط بھی لکھے تھے لیکن ان کی پشت پناہی سے نواز شریف صاحب کو فائدہ پہنچا۔ میری سوچ یہ ہے کہ ریٹرننگ افسران نے اپنا جھکائو نواز شریف کی طرف ہی رکھا اور میڈیا نے کھلے عام بکھرتے بیلٹ پیپرز کو بھی دکھایا‘ لیکن الیکشن کمیشن نے اس دھاندلی کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ اس کی اس وقت کی انتظامیہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خوف سے بیدِ مجنون کی طرح کانپ رہی تھی اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم اپنی یادداشت کھو بیٹھے تھے اور بے بس چیف الیکشن کمشنر تھے۔ ان کی اس کمزوری سے نواز شریف نے پورا فائدہ اٹھایا اور عمران خان جیتی ہوئی بازی ہار گئے۔ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں یہ پالیسی بیان دیا تھا کہ ہر حلقے میں 70 فیصد ناقص ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
عمران خان کے پنجاب کے انتخابی معرکہ میں نواز شریف صاحب کی مخصوص حکمتِ عملی کے تحت نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہے کیونکہ پنجاب کی ڈھائی لاکھ پولیس اور بیوروکریسی‘ جو شہباز شریف کی وفادار ہیں اور جن کو بیرون ممالک کے پراجیکٹ سے 25 لاکھ سے زائد کی مراعات موصول ہو رہی ہیں، عمران خان کی انتخابی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں گی اور پنجاب کا پولنگ کا عملہ بھی ان کے ہاتھوں یرغمال رہے گا۔
نواز شریف کو احتساب کورٹ سے سزا ملنے کے ردعمل کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ انہوں نے اداروں کے درمیان تصادم جیسی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ ان کے حامی اپوزیشن جماعتوں کے دفاتر اور بعض اداروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں افواج پاکستان آئین کے آرٹیکل 5 اور 190 کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہیں‘ جس سے الیکشن کے انعقاد کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ جب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم کی‘ ایک سرمایہ دار کے گھر طلب کرکے‘ متحدہ قائد الطاف حسین کی طرز پر سرزنش کرتے ہیں تو اس سے ملک کے وزیر اعظم آفس کی بے توقیری ہوتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں