"KDC" (space) message & send to 7575

اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ریمارکس دے کر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نام نہاد تحریکِ عدل کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ میرے خیال میں تحریکِ عدل‘ سپریم کورٹ سے نااہلیت کے خلاف تحریک ہے۔ ہمارے موجودہ نظام میں عدل میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے اور قوم نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سنہری موقع دیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کر سکیں‘ لیکن ان کی توجہ نواز شریف کی کامیابی کی طرف مبذول رہی۔ اس طرح معاملہ وہیں کا وہیں رہا‘ اور اس میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہ ہوئی۔ میں پھر کہوں گا کہ نظام عدل میں اصلاحات لانے کی گنجائش موجود ہے‘ لیکن اس کا طریقہ وہ نہیں جو سابق وزیر اعظم نے اختیار کر رکھا ہے۔ میری اطلاعات یہ ہیں کہ اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عزیزوں کے ذریعے صدرِ پاکستان بنانے کی خفیہ پیشکش کی گئی تھی۔ واللہ اعلم۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ نواز شریف کی اداروں سے محاذ آرائی انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی اور شاید جمہوریت اور جمہوری نظام کو بھی۔ ان کا نام ملک کی سیاسی تاریخ کے اوراق سے بھی مٹ جائے گا کیونکہ نواز شریف تاریخ کا دھارا موڑنے یا حالات کا رخ مکمل طور پر تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 5 کے تابع ہیں‘ اور حکم عدولی کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ممکن ہے۔ اور یہ کہ اس مرتبہ انتخابات میں ذاتی اثر و رسوخ بھی شاید زیادہ نہ چلے گا‘ کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئندہ انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدار انعقاد کی ضمانت دے دی ہے۔
اب کچھ بات ہو جائے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی‘ کیونکہ اگلے چند ماہ میں اگر ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں تو جابز کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا معاملہ ایک بار پھر اٹھائے جانے کا امکان ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق تسلیم کروانے کی مہم کا آغاز 1993ء میں برطانیہ کی شہری یاسمین خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی پٹیشن داخل کر کے کیا تھا، جس کی پیروی ملک کے ممتاز ماہرِ قانون اکرم شیخ نے کی۔ اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں ایک لارجر بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اور معاملہ غور و خوض کرنے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیا۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین نے سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان کے انتخابات میں ووٹ کا حق دینے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ میں بھی اس کمیٹی کا رکن تھا۔ ہماری ٹیم میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، اوورسیز پاکستان ڈویژن اور وزارتِ خزانہ کے علاوہ اقتصادی امور کے سینئر ترین نمائندگان شامل تھے۔ یاسمین خان نے اپنا کیس بے حد عمدگی سے پیش کیا تھا۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے ڈیٹا بھی فراہم کیا‘ جس کے مطابق اس وقت بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد 50 لاکھ کے قریب تھی۔ ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، قطر، بحرین، کویت، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم اوورسیز پاکستانی شامل تھے۔ وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کا مؤقف اُس وقت یہ تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ دینے کے معاملے میں رضا مندی کا اظہار نہیں کیا ‘ کیونکہ ان ممالک کے حکام کا خیال تھا کہ جب جمہوری انداز میں انتخابی مہم شروع کرائی جائے گی تو ان ممالک کے سیاسی سسٹم پر اس کا گہرا اثر پڑے گا‘ جبکہ برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے حکومت پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ اسی طرح 2009ء میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ دینے کے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی میری سربراہی میں تشکیل دی۔ ہم نے ایک جامع رپورٹ بھجوائی‘ جس میں 1994ء سے 2004ء تک کی کارروائی کا ہم نے از سر نو جائزہ لیا اور اس معاملے میں پیش رفت کے سلسلے میں کچھ تجاویز بھی مرتب کیں۔ انہی دنوں ایم کیو ایم نے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا معاملہ قومی اسمبلی اور دیگر فورمز پر اٹھایا اور ڈاکٹر فاروق ستار نے بطور وفاقی وزیر اوورسیز ڈویژن میں اس قومی اہمیت کے حامل معاملے پر آواز اٹھائی۔ ہم نے اپنی رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے خدشات کے حوالے سے حکومت کو آگاہ کر دیا تھا۔ اسی دوران صدر آصف علی زرداری نے بھی پاکستانی سفارت خانوں کے پولیٹیکل ونگز سے اوورسیز پاکستانیوں کے سیاسی رجحانات کے بارے میں سروے کروایا۔ وہ بھی بیرون ممالک پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں تھے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو امید دلائی گئی ہے کہ انہیں 2018ء کے انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کا حق ملنا چاہیے‘ مگر اس سارے معاملے کی تکنیکی صورتحال یوں ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں نادرا کا ادارہ سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کا حق فراہم کرنے والے سافٹ ویئر کے خدوخال سپریم کورٹ میں پیش کرے گا۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ووٹنگ پر الیکشن کمیشن حکام بھی اپنا نقطۂ نظر سپریم کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔ نادرا کے مطابق گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے نادرا کے چیئرمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے جو بھی بہتر طریقہ ہے‘ اختیار کرے۔ ا س پر نادرا کی جانب سے انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم پر بریفنگ بھی دی گئی تھی؛ تاہم اب سپریم کورٹ کی ہدایات پر نادرا انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کے لئے مجوزہ سافٹ ویئر کے خدوخال پیش کرے گا۔ مجوزہ سافٹ ویئر پانچ عوامل پر تشکیل دیا جائے گا۔ پہلے آن لائن رجسٹریشن، دوسرے نمبر پر آن لائن تصدیق، تیسرا آن لائن ووٹنگ، چوتھا آن لائن رزلٹ مینجمنٹ سسٹم اور پانچواں آن لائن الیکٹورل آڈٹ سسٹم۔ نادرا کا ادارہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں سافٹ ویئر تیار کرنے کا مجاز ہو گا۔ اسی طرز پر پارلیمانی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی نے بھی اپنی سفارشات مرتب کی تھیں۔ دریں اثناء سمندر پار پاکستانیوں کو حق رائے دہی سے متعلق الیکشن کمیشن نے 2015ء میں کئی تجربات بھی کئے اور ان میں انٹرنیٹ ووٹنگ کو سکیورٹی خدشات سے مبرا قرار نہیں دیا گیا تھا۔ یہ واضح رہے کہ نادرا کی جانب سے 70 لاکھ سے زائد سمندر پار پاکستانیوں کو شناختی کارڈز جاری کئے گئے ہیں؛ تاہم واضح قانون سازی کی عدم موجودگی کے باعث سمندر پار پاکستانیوں کو حق رائے دہی میں مشکلات کا سامنا ہے کہ قانون میں فقط تجربات کرنے کا کہا گیا ہے‘ اور تجربات کے لئے بھی کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا‘ لہٰذا قومی انتخابات 2018ء کے بعد بیرون ممالک پاکستانیوں کو حق رائے دہی کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
اب ایک اور معاملہ زیر غور لاتے ہیں۔ قصور میں کمسن زینب پر گزرنے والی قیامت ہمارے سماجی اور اخلاقی زوال کی انتہا ہے۔ اس انسانیت سوز واقعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہم درجۂ آدمیت سے بھی گرتے جا رہے ہیں۔ اس واقعے سے ہر آنکھ پُر نم ہے اور ہر دل تڑپ اٹھا ہے۔ غم و غصہ بھی ہے اور حکومت پنجاب کی پستی کا ماتم بھی۔ ہر صاحبِ اولاد کے دل میں بڑھ جانے والا اندیشہ و غم اس پر مستزاد ہے۔ اگرچیہ یہ معاملہ اور مقدمہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے‘ اس لئے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا‘ پھر بھی میرا مشورہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود سچائی تک پہنچنے کیلئے بڑی ذمہ داری سے ثبوت فراہم کریں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات پر رائے معلوم کی گئی تو بیشتر حق گو صحافیوں نے یہ کہا کہ صحافت حق و صداقت پر مبنی خبریں عوام تک پہنچانے کا نام ہے۔ قصور شہر میں جب ڈھائی سو سے زائد بچوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیو بنا کر سمگل کرنے کی خبر سامنے آئی تو سیاسی اور انتظامی سنگدلی اور بے حسی نے پاکستان میں قانون کے نفاذ کی صورتحال کھول کر واضح کر دی۔ 
اس ضلع یعنی قصور سے پانچ قومی اسمبلی اور دس صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ صوبائی اسمبلی پنجاب کے سپیکر رانا محمد اقبال کا تعلق بھی قصور سے ہے۔ پولیس کا بھاری بھرکم ڈھانچہ بھی قائم ہے لیکن اس کے باوجود جرائم بڑھتے جا رہے ہیں‘ جو وہاں کی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ دل دہلا دینے والے واقعہ کو میڈیا پر لانے کے بعد پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور بچوں کے عدم تحفظ کا خوف ہر گھر کے اندر انتہائی دکھ اور رنج کے ساتھ محسوس کیا جانے لگا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں