"KDC" (space) message & send to 7575

چالیس کروڑ کی پیشکش کس نے کی؟

ضمیر فروشی اور ووٹوں کی خریداری کی سیاست ملکی مفاد کے منافی ہے‘ اس کے خلاف جہاد کیا جانا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا ، جو بلا شبہ اصولی حقیقت کی نشاندہی ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں‘ لیکن برمحل سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں جس شخص کی جماعت کا ایک رکن بھی نہ ہو وہ سینیٹر کیسے منتخب ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے لا محالہ دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کے ضمیروں کا سودا کرکے ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ لیکن ووٹ خرید کر سینیٹر بننے والا ملک اور قوم کا وفادار کس طرح ہو سکتا ہے اور عوام کے مفاد کے لئے کیونکر کام کر سکتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں یہ خیال عام ہے کہ سیاست میںکوئی اخلاقیات اور اصول نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ سیاست کو مکر و فریب اور جوڑ توڑ کا کھیل سمجھتے ہیں۔ اس پیمانے کے مطابق کامیاب سیاستدان وہ سمجھا جاتا ہے‘ جو منصب اور اقتدار کی خاطر ہمہ وقت ہر گھٹیا حربہ آزمانے کو تیار ہو۔ لیکن حقائق کی روشنی میں یہ ایک بے بنیاد تصور ہے۔ سیاست کے میدان میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور عوام کی نگاہوں میں دائمی احترام اور مقبولیت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جن کی سیاست اعلیٰ اخلاقی اقتدار پر استوار ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام کو بھی سات دہائیوں کے تجربات نے ماضی کے مقابلے میں یقینا زیادہ باشعور بنا دیا ہے۔ انتخابات میں ووٹوں کی شکل میں ضمیر خریدنے اور فروخت کرنے والے دراصل پورے معاشرے کی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ اس طرح اقتدار کے مراکز تک وہ لوگ پہنچتے ہیں‘ جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ پاکستانی قوم بار بار دیکھ چکی ہے کہ قومی وسائل ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آتے ہیں تو قومی خزانہ خالی ہونے لگتا ہے۔ سرکاری سودوں پر کمیشن کی شکل میں ان کی تجوریاں بھرنے لگتی ہیں اور سرکاری زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا انتخابات میں راستہ روکنا عوامی مفاد میں ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کوئی مثالی اور روشن نہیں ہے۔ کچھ سیاسی راہنمائوں کے رویّے بھی مایوس کن ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس تربیت یافتہ عملے کی کمی اور اس کی تربیت کے فقدان جیسے کئی عذر ہیں اور اس کے نتیجے میں الیکشن رزلٹ کا تبدیل ہونا حلقہ کے ووٹرز کے ساتھ زیادتی‘ اور الیکشن ٹربیونلز کے فیصلے کی روشنی میں دوبارہ الیکشن ہونا قومی خزانے کا ضیاع ہے۔ ایسے عذر قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ تحریک انصاف کے شدید احتجاج پر جوڈیشل کمیشن کے سامنے ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے گئے حالانکہ 2013 کے انتخابی نتائج پر تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت تمام قابل ذکر جماعتوں کے تحفظات تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی اس قدر قابل اعتماد ہونی چاہئے کہ کوئی پارٹی الیکشن کے نتائج پر اعتراض نہ اٹھا سکے۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی میں مضبوط شخصیت، اس کی دیانت داری اور متعلقہ قوانین میں مہارت کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ الیکشن کے حوالے سے کسی کو تحفظات اور اعتراضات ہوں تو الیکشن کمیشن فوری طور پر انہیں دور کرنے کی کوشش کرے اور غلط الزامات لگانے والوں کے خلاف عدالتی کارروائی کرانے اور بے جا الزامات کی راوایت ختم کر نے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن کمیشن کے قوانین سے استفادہ کرنا چاہئے۔
اس ساری صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ قوم کے ان مجرموں نے عوام کے عتاب سے بچنے کے لئے سلطانیٔ جمہور کے آفاقی تصور میں اپنے آپ کو قلعہ بند کر رکھا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے قومی مجرموں کے سامنے خود کو سینہ سپر کر لیا ہے۔ اسی ضمن میں چیف جسٹس کا یہ فرمانا نہایت خوش آئند ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی اگلی نسل کو ایک بہتر پاکستان دے کر جانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ جس بہتر پاکستان کی نوید چیف جسٹس سنا رہے ہیں‘ وہ یقینا اس بوسیدہ نظام کے کھنڈرات پر ہی تعمیر ہو گا جس نے بد ترین قومی مجرموں کو ملک کے مقدر کا مالک بنا رکھا ہے۔
ضمیر کے سوداگروں سے آباد پارلیمنٹ اب بھی اگر آخری سانس نہیں لے رہی تو پھر اگلی نسل کو ایک بہتر پاکستان کب اور کیسے ملے گا؟ اسی تناظر میں عمران خان پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی نے سینیٹ کی سیٹ کے لئے چالیس کروڑ روپے کی پیش کش کی تھی۔ عمران خان کو اس کا نام بتانا چاہئے تاکہ الیکشن کمیشن اس شخص سے معلومات اکٹھی کرتے ہوئے منی ٹریل تک پہنچ سکے۔ الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹس کے تحت ایسے سرمایہ کار کو تین سال کی سزا دینے کا مجاز ہے‘ جس نے عمران خان کو چالیس کروڑ کی پیش کش کی۔ اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اب حقائق کو پردے میں نہ رکھیں بلکہ ایسے مجرموں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حوالے کریں۔ عمران خان کے اس حالیہ دعوے کی وجہ سے سینیٹ امیدواروں کے نرخ میں اضافے کا اندیشہ ہے اور اس کے اثرات صوبہ بلوچستان اور فاٹا پر پڑنے کے خدشات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پیپلز پارٹی‘ جو چاروں صوبوں کی زنجیر قرار دی جاتی رہی ہے‘ کے امیدواروں کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ضمانتیں ضبط ہو رہی ہیں۔ پارٹی قیادت کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے 2018 کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کے دعوے خوش فہمی اور مبالغہ آرائی کے زمرے میں شامل ہونگے۔ اسی طرح 2018 کے انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کے دعووں پر بھی اوس پڑتی نظر آرہی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج اس امر کا عندیہ دیتے نظر آ رہے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتیں ناقص انتخابی حکمت عملی کی وجہ سے نواز لیگ کو سنگل میجارٹی پارٹی بنا دیں گی۔ 
تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین نے ایک اچھی مثال یہ قائم کی کہ اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اپنے حامیوں کے بجائے مسلم لیگ (ن )کے کیمپ میں پہنچ گئے اور اپنے مدمقابل اقبال شاہ اور دیگر لیگی کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی اور پولنگ کے حوالے سے بات چیت بھی کی۔ علی ترین نے کہا کہ الیکشن تو ایک روز ہونا ہے مگر ہمیں ساری زندگی یہیں رہنا ہے۔ تحریک انصاف کی بڑی بڑی گاڑیوں سے فیشن ایبل لوگ تو نکلے مگر ووٹرز کو نہ نکال سکے۔ گنے کی سیاست بھی آڑے آئی اور کسان اتحاد کے ارکان نے بھی کانجو گروپ کی سوچ کے تحت انتخابی حکمت عملی کو اپنایا۔ تحریک انصاف کی انتخابی حکمتِ عملی نہ ہونے کے برابر ہے اور اندرونی طور پر پائے جانے والے اختلافات بھی مناسب نہیں ہیں۔ عبدالرحمان کانجو کی انکساری اور مضبوط رابطے کا مقابلہ جہانگیر ترین اپنی وسیع القلبی کے ساتھ نہ کر سکے۔ 
بے احتیاطی اور بے ضابطگیوں کا عالم یہ ہے کہ 10 فروری کو عمران خان کے جلسے سے سابق ایم این اے اور شرافت کی علامت نواب امان اللہ خان‘ ضلعی صدر تحریک انصاف ڈاکٹر شیر محمد اعوان اور دوسرے معززین کے حامیوں کو دھکے دے کر سٹیج سے اتار دیا گیا۔ یہ مناظر الیکٹرانک میڈیا پر ہزاروں لوگوں نے دیکھے۔ ان شرکا نے اپنا بھرم قائم رکھتے ہوئے نہ تو احتجاج کیا اور نہ ہی انتخابی مہم سے دوری اختیار کی بلکہ کارکنوں کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھا۔ میرے خیال میں اسی رویے کی وجہ سے لودھراں میں علی ترین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لودھراں شہر میں 1970 سے لے کر آج تک کبھی مسلم لیگ کامیاب نہیں ہوئی۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف زمینی حقائق کا بھی ادراک کر لے اور عمران خان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی روایت کے مطابق عام لوگوں سے ملنے کا طریقہ اپنائیں۔ سیاست دان کو روایتی طریقہ اختیار کرنے یا دولت کی تشہیر کرکے انتخاب جیتنے کی روش ترک کرکے عوام کے مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیح سمجھنا چاہئے۔ لودھراں کے ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک نے نواز لیگ سے زیادہ تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا۔ خادم حسین رضوی نے دو ہفتہ تک حلقے میں اپنے امیدوار کی تحریک چلائی۔ عمران خان پاکستان کے سیاسی اور حکومتی نظام میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں موروثی لیڈر شپ کی شدید مخالفت کرتے آئے ہیں‘ لیکن علی ترین کو ٹکٹ ایوارڈ کرکے موروثی سیاست کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اگر جہانگیر ترین بھی علی ترین کو ٹکٹ ایوارڈ کرنے کی سفارش نہ کرتے اور ان کی جگہ اسحاق خاکوانی کو لودھراں الیکشن کے لئے نامزد کرتے تو ان کی کامیابی یقینی تھی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں