"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کا الیکشن اور قومی معیشت

میرے خیال میں سینیٹ کے آئندہ انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا اپنے ارکان صوبائی اسمبلی پر اعتماد نہیں رہا کیونکہ وہ ان انتخابات میں ووٹرز ہیں۔ شاید اسی لئے سیاسی جماعتیں اپنے ارکانِ صوبائی اسمبلی کی مانیٹرنگ میں مصروف ہیں۔ شنید ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ارکانِ صوبائی اسمبلی کی قیمتیں لگ رہی ہیں کیونکہ ان صوبائی اسمبلی کے ارکان کو ادراک ہے کہ چند ماہ بعد قومی انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے اور پارٹی ٹکٹ کے بارے میں یہ ارکان مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیں‘ لہٰذا سینیٹ کے انتخابات کی صورت میں ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ان کی قیمت اور اہمیت میں یکدم اضافہ ہو گیا ہے‘ لیکن اکثریت حاصل کرنے کے لئے ہونے والے جوڑ توڑ نے اخلاقی اور سیاسی اصولوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔
ہمارے نام نہاد سیاسی رہنمائوں کو اندازہ ہی نہیں کہ صورتحال کس قدر نازک ہے کہ ایک جمہوری حکومت کی مدت ختم ہونے جا رہی ہے اور عام انتخابات کے ذریعے اگلی جمہوری مدت شروع ہونے والی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ پاکستان اب 70 سال بعد اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کی تبدیلی کا رسک لے رہا ہے، یہ اب امریکہ کی حمایت کے بجائے امریکہ مخالف صف بندیوں میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں میں اپنی حیثیت منوانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بلاشبہ عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے اور یہ نئی دنیا کی تشکیل کے دوران عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے ٹکرائو کا میدان بھی بن سکتا ہے‘ اس لئے بے حد احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس خطے میں نئی صورتحال میں نئے تناظر سامنے آ رہے ہیں‘ تھوڑا عمیق جائزہ لے کر جن کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے دورۂ بھارت کے دوران چابہار پورٹ لیز پر بھارت کو دینے کا اعلان کیا جبکہ چابہار زاہدان ریلوے لائن منصوبہ جلد مکمل کیا جا رہا ہے اور ایرانی صدر حسن روحانی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے توانائی، تجارت‘ دفاع اور سکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون پر زور دیا ہے‘ اور دونوں ملکوں نے متعدد معاہدوں پر دستخط بھی کئے ہیں۔ علاوہ ازیں دونوں ملکوں کا افغانستان میں مل کر کام کرنے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اندازہ لگایا گیا ہے کہ سعودی مملکت کی علاقائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے‘ اور خبر یہ ہے کہ پاک فوج سعودی سرزمین کا دفاع کرے گی۔
ان حالات میں جب مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی حیثیت کی تبدیلی کے لئے بین الاقوامی قوتیں اکٹھی ہو رہی ہیں‘ پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت میں کوئی ایسا قد آور سیاست دان نہیں ہے جو عالمی سطح پر ہونے والے کھیل میں پاکستان کو محفوظ ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ ہمارے ہاں بعض سیاستدان عدلیہ اور افواجِ پاکستان سے تصادم کی راہ پر نکل پڑے ہیں‘ اور اربوں ڈالر کی میگا کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے پاکستان کی اساس کو پارہ پارہ کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ سینیٹ میں کامیابی کے لئے ارب پتی امیدواروں‘ جن کا پارٹی سے تعلق تک نہیں ہے‘ کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ اور اس کارروائی کا مقصد ان سے ڈالر لے کر اپنے ارکان اسمبلی کو دینا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی گروئوں نے صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور فاٹا کے ارکان کو خریدنے کے لئے دبئی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ماحول بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گیا ہے۔ نظریات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور ذاتی مفادات کے حصول اور تحفظ کی ایک طرح سے جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور ملک کے حقیقی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے معروضی تجزیے سے خالی ہیں اور کسی بھی منشور میں عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں حالات کا ادراک موجود نہیں ہے۔ پروگرام کی سیاست نہیں رہی اور نہ ہی عوام کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ان کے پروگرامز کی بنیاد پر ہے۔ اب تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل ہی موجود نہیں ہے‘ کیونکہ اگر ان کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا تو وہ اسے اپنے سیاسی منشور کا حصہ بناتیں۔ ہماری بعض بڑی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیلز نے پاکستان میں ایسی گمراہ کن مہم شروع کر رکھی ہے کہ پاکستان کے عوام کو صحیح حالات کا ادراک ہی نہیں ہو پا رہا اور حالات و واقعات پر جیسے ایک دھند سی چھائی ہوئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا داخلہ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی وژن نہیں ہے۔ دس برس کے عرصہ میں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا داخلی معاملہ ہو یا خارجہ پالیسی‘ سیاست دانوں نے دونوں سے نہ صرف لاتعلقی اختیار کئے رکھی ہے بلکہ یہ امور فوجی قیادت پر چھوڑ دیئے ہیں۔ سفارتی محاذ پر ان دس سالوں کے دوران سیاست دانوں کے مقابلے میں عسکری قیادت زیادہ سرگرم نظر آتی ہے۔ اب آزمائش کی اس گھڑی میں سیاست دان اپنے کردار اور اپنے اہداف پر نظرثانی کریں ورنہ جمہوری عمل کا یہ قابل فخر مرحلہ جمہوریت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ جب سیاست دان خود ہی خلا چھوڑیں گے تو کوئی نہ کوئی تو اسے پُر کرے گا ہی۔ سیاستدانوں کی طرف سے اگر کوتاہی ہو گی تو پھر وہی طویل مدتی عبوری حکومت کی تلوار لٹکے گی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 268 کھرب روپے کی صورت میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں جو یقینا خطرے کی گھنٹی ہے۔ ملک میں اب تک کئی مالی بحران آئے، دو بڑی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، ایٹمی دھماکے بھی کئے گئے، جس کے بعد قومی معیشت کو دیوالیہ جیسی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن قرضوں کی مالیت یہاں تک پھر بھی نہ پہنچی تھی۔ حیرت ہے کہ جمہوری استحکام اور تمام اداروں کی یکجہتی ہونے کے باوجود قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘ جس نے قوم کو ایک نئی تشویش میں ڈال دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق 2016-17 میں قرضوں کے بوجھ میں 34 کھرب 77 ارب روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں اب تک مجموعی طور پر 9 کھرب 91 ارب روپے کے نئے قرضے لئے جا چکے ہیں۔ اب سوچنے سے زیادہ عمل کرنے کا وقت ہے۔ وفاقی بجٹ 2018-19 تیاری کے مراحل میں ہے‘ آئندہ مالی سال کے اہداف کا تعین بھی کرنا ہے۔ دوسری طرف بنیادی ضروریات کی حامل اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے، ریاست کو منتشر ہونے سے محفوظ رکھنے اور سوویت یونین جیسے سانحہ سے بچنے کے لئے‘ یہ امید کی کرن معیشت کو آنے والے شدید بحران سے نکال سکتی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور صدر مملکت کی باہمی سوچ سے ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے بیرونی ملکوں میں رکھا گیا کھربوں روپے مالیت کا سرمایہ واپس لانے کے لئے سعودی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جائیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ ملک کے چار سو کے لگ بھگ سرمایہ کاروں، سیاسی رہنمائوں اور پاناما پیپرز کے سہولت کاروں اور سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئیے گئے سیاستدانوں کو گرفتار کر کے ان کو فائیو سٹار ہوٹلز میں نظر بند کر کے تمام لوٹی گئی رقوم واپس لی جائیں۔ ملک کے تین اہم ادارے اور اسلامی مملکت کی سخت گیر پالیسی کو اپنانے کے لئے حتمی لائحہ عمل طے کر کے ہی ریاست کے اقتصادی ذخائر کو بچایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں