"KDC" (space) message & send to 7575

نیب ‘بیورو کریسی اور انتخابی اصلاحات

پنجاب حکومت احد چیمہ کی گرفتاری پر فکر مند نظر آ رہی ہے جبکہ پنجاب کی نیلی آنکھوں والی بیورو کریسی احد خان چیمہ کی گرفتاری کی وجہ سے نیب کے سامنے آ گئی ہے۔ اب چیئرمین قومی احتساب بیورو پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ احد خان چیمہ کو کرپشن کا ماسٹر مائنڈ ثابت بھی کر کے دکھائیں۔ اگر نیب اس میں کامیاب ہو جاتی ہے تو شہباز شریف کا سیاسی مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔ اسی پس منظر میں پنجاب کی اعلیٰ بیورو کریسی‘ جو مجھے کرپشن کے جال میں پھنسی ہوئی نظر آ رہی ہے‘ احد چیمہ کی آڑ میں صوبے کی انتظامی مشینری کو مفلوج کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کر رہی ہے اور سازش کے تحت پنجاب بیورو کریسی میں بغاوت کروائی جا رہی ہے۔ شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ریاست کے اہم ستون ہیں‘ مجھے لگتا ہے کہ وہ ادارے کمزور کرتے ہوئے اپنی ہی بیو رو کریسی کو اکسا رہے ہیں۔ اداروں کو آپس میں لڑا کر وہ کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟ ان کی بیورو کریسی نے صورتِ حال عیاں کر دی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف اسی بیو رو کریسی کے بل بوتے پر گزشتہ تیس برسوں سے عظیم پنجاب کے منصوبے پر انتہائی پراسرار طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ اب ان کا خاندان گرفت میں آ چکا ہے اور ڈائون سائزنگ شروع ہو چکی ہے۔ نواز شریف اداروں کو کمزور کرنے کی راہ پر چل نکلے ہیں‘ یہ راہ ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی بیورو کریسی نے 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کے لئے دھاندلی کی راہ ہموار کی تھی۔ میری تحقیق کے مطابق احد چیمہ کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا اس وقت ڈائریکٹر جنرل لگایا گیا جب موصوف گریڈ 19 کے جونیئر ترین افسر تھے اور انہوں نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تقریبا چالیس ہزار ملازمین کو لاہور کے اہم حلقوں میں اہم ذمہ داریاں تفویض کروانے کے لئے لگ بھگ دس ریٹرننگ افسران پر دبائو بھی ڈالا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ سے ثابت ہو جائے گا کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چالیس ہزار افسران کی ڈیوٹیاں لاہور کے پولنگ اسٹیشنوں پر لگوائی گئیں تھیں‘ جن میں خواجہ سعد رفیق، نواز شریف، سردار ایاز صادق اور حمزہ شہباز شریف کے حلقے بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کی 13 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے12 نشستیں اسی حکمت عملی کی تحت جیتی گئیں۔ اگر خواجہ سعد رفیق کے بارے میں الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ پڑھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ تین سال پیشتر الیکشن ٹریبونل نے خواجہ سعد رفیق کا الیکشن کالعدم قرار دے دیا تھا جبکہ وہ حکم امتناعی پر آج تک وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عدلیہ کی تضحیک میں بھی پیش پیش ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی اپنی صلاحیتوں کو گرہن لگا رہی ہے اور اس کا حالیہ اقدام مضحکہ خیز ہے جو لاحاصل اس لئے رہے گا کہ وہ ریاستی آئین سے محاذا آرائی کر کے قومی احتساب بیورو کے مردِ آہن جسٹس جاوید اقبال کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اس کے برعکس اپنا مستقبل مخدوش کروا رہی ہے۔ ان کی مہم جوئی انارکی کی طرف جا رہی ہے اور عسکری قیادت کو اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 5 کا مکمل ادراک ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی آرٹیکل 190 کے ہتھیار سے لیس ہے۔ 
وفاقی حکومت اور انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اپوزیشن ارکان نے باہمی اشتراک سے کاغذات نامزدگی کے فارم میں مالی گوشوارے، دہری شہریت، اثاثوں کی تفصیلات اور بیرون ممالک میں آف شور کمپنیوں کے مندرجات ختم کرکے مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کرنے کے محفوظ ترین راستے فراہم کئے۔ ان ترامیم سے دہری شہریت والے ارکان فوجداری مقدمات سے بچ نکلیں گے۔ حقائق چھپانے کے جرم میں نواز شریف صاحب کو جن آرٹیکل 62 ون ایف، عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 12، عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 99 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 78 کے تحت تاحیات نا اہل قرار دیا گیا تھا‘ انہیں کاغذات نامزدگی فارم سے خارج کر دیا گیا۔ کاغذات نامزدگی فارم‘ جو Self Contained Documents کی حیثیت رکھتے تھے‘ کی روح کو ہی حذف کر دیا گیا۔ اب عوامی نمائندوں کو ٹیکس چوری، قرضہ خوری، مجرمانہ الزامات کا سامنا ہو یا وہ دہری شہریت کے حامل ہوں‘ انہیں اپنے انتخابی کاغذات میں ان چیزوں کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں۔ انتخابی امیدواروں کے جو ڈیکلریشن حذف کر دیئے گئے ہیں ان میں امیدوار کے زیرِ کفالت لواحقین کی کمپنیوں کے بارے میں تفصیلات، زیر التوا مجرمانہ مقدمات، تعلیمی قابلیت، موجودہ پیسے کے بارے میں کوائف، نیشنل ٹیکس نمبر، گزشتہ تین برسوں کے دوران بیرونِ ممالک دوروں کی تفصیلات، ادا شدہ زرعی انکم ٹیکس کی تفصیل، اگر اس سے قبل کسی حلقے سے منتخب ہوئے تو اس حلقے میں اپنی جانب سے کئے گئے اہم اور نمایاں اقدامات، امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے والی سیاسی جماعت کو ادا کردہ رقم، سیاسی جماعت کی جانب سے ملنے والے فنڈز، رواں اور گزشتہ مالی سال میں مجموعی اثاثوں کا فرق، غیر ملکی پاسپورٹ کی تفصیلات جبکہ واجبات کے بیان سے ذاتی اخراجات کی تفصیلات، حلفیہ بیان کہ امیدوار پاکستان کا شہری ہے اور کسی دوسرے ملک کی قومیت کا حامل نہیں ہے‘ شامل ہیں۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی کی کار کردگی بد ترین کیفیت سے دو چار رہی کہ تمام پارلیمانی جماعتوں نے باہمی مشاورت اور اشتراک سے کاغذات نامزدگی کے فارم سے ایسا مواد نکلوا دیا جس سے وہ کسی وقت بھی غلط بیانی کی بنیاد پر گرفت میں آ سکتے تھے۔ انتخابی قانون کی متعلقہ شقوں کو مشترکہ مفادات کے معاملے‘ منفرد اتفاق رائے سے حذف کر دیا گیا ہے۔ کسی پارلیمانی جماعت نے انتخابی امیدوار کو کلین چٹ دیئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا حالانکہ نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن نومبر 2016ء سے نومبر 2017ء تک مختلف مذاکروں، گول میز کانفرنسز اور غیر ملکی سفارت کاروں کے اعزاز میں عشائیہ کے موقع پر اپنے تحفظات کا مکمل اظہار کرتی رہی۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر درجنوں پروگراموں میں حکومت کی بدنیتی پر آواز اٹھائی گئی۔ ہم نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن سے بھی استدعا کی تھی؛ چونکہ کاغذات نامزدگی کے فارم کی تشکیل 13 جون 2012ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں ہوئی تھی‘ لہٰذا یہ سراسر سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکا مات کو نظر انداز کرنے اور توہین عدالت کے مترادف ہے۔ نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن نے اپنی سفارشات صدر مملکت، وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی بھجوائی تھیں۔
عوام کے ووٹوں کے ذریعے حکومت کا حق حاصل کرنے، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آئین میں ترمیم اور قانون سازی کے اختیارات کے حامل سیاست دانوں کا آئین کی تکریم کا ریکارڈ بھی کچھ زیادہ قابل رشک نہیں ہے۔ 5 جولائی 1977ء اور 12 اکتوبر 99ء کو جنرل ضیا ء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئینی اقدامات اور ان کی جانب سے آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو منتخب اراکین اسمبلی نے ہی آٹھویں اور سترہویں ترامیم کے ذریعے آئینی سند عطا کی تھی۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کی موجودگی میں کئی آئینی دفعات کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور ان پر عمل در آمد نہ کرنے کے لئے مختلف جواز بیان کئے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی قانونی بحث بھی کروڑو ں عوام کے لئے فیض یا مراعات کا سبب نہیں بن پا رہی۔
فیصلے ہوں یا تبصرے‘ ان سے غریب عوام کو تو کچھ نہیں مل رہا۔ 2018ء انتخابات کا سال ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے گزشتہ پانچ سالوں میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قابل تعریف پروگرام پیش نہیں کیا‘ نہ ہی اپنے منصوبوں پر عمل کرنے والے اہل اور باصلاحیت افراد کے ناموں سے ووٹرز کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں