"KDC" (space) message & send to 7575

ڈیموکریسی اور اکانومی

دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس کے دسویں اشارے کے مطابق گزشتہ تیس سال سے پاکستان میں جمہوریت مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ برطانیہ کے اس مشہور مجلے نے دنیا کے 167جمہوری ممالک کی فہرست مرتب کی‘ جس میں صفر سے دس تک سکور رکھا گیا‘ اور پاکستان نے اس میں 4 اعشاریہ 26 سکور کیا ہے‘ جبکہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان کا سکور 4 اعشاریہ 64 تھا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ تھا کہ ہمارے ملک میں ہر سال جمہوریت کا گراف نیچے گرتا جا رہا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گڈ گورننس نہ ہونے‘ بادشاہت جیسا نظام ہونے اور حکمرانوں کا بادشاہوں جیسا طرز عمل ہونے کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف شروع سے ہی ایک مخصوص نظامِ حکومت کی طرف مائل رہے ہیں اور انہوں نے بارہویں ترمیم کے ذریعے اس نظام کو یہاں رائج کرنے کی ایک کوشش بھی کی تھی‘ جسے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ناکام بنا دیا تھا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کو لاحق خطرات کی وجہ سے ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ بعض سیاست دانوں کے غیر جمہوری رویے سے بیرونی عناصر کو پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے سازگار فضا میسر آ رہی ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ کچھ انٹرنیشنل این جی اوز نے بعض ملکی این جی اوز کے ذریعے ملک میں ذہنی، ثقافتی اور نظریاتی خلفشار پیدا کر دیا ہے۔ غیر ملکی اداروں سے مستفید ہونے والی این جی اوز آنے والے انتخابات میں بھی اپنی پسندیدہ جماعتوں کے لیے ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں‘ جس سے ملک کے آئندہ انتخابات متنازع ہو جائیں گے اور اس کی وجہ سے فیڈریشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میرا خیال یہ بھی ہے کہ پنجاب میں بیوروکریٹس نے جس طرح چیئرمین نیب کے فیصلے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا‘ اس سے عظیم تر پنجاب کی بنیاد ڈال دی گئی ہے‘ جس کی کوششیں پچھلے کچھ عرصے سے جاری تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ کی ایما پر کیا گیا اور میرا اندازہ یہ ہے کہ بیوروکریسی جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اس سے ملک میں خانہ جنگی کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور کسی حد تک صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ صورتحال اس طرح سے جڑ پکڑ رہی ہے کہ اگر ان کے صوبے کی بیوروکریسی خروج کرتی ہے تو پنجاب کی ساری قوتیں ان کے خلاف صف آرا ہو جاتی ہیں‘ جبکہ پنجاب کے 280 کے لگ بھگ نیلی آنکھوں والے بیوروکریٹس وفاق کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو ملازمتوں سے معطل کرنے کے بجائے ان کو سرکاری وسائل سے نوازا جا رہا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ان 280 بیوروکریٹس‘ جو کلیدی عہدوں پر فائز ہیں‘ کو آئندہ انتخابات کے عمل سے باہر رکھا جانا چاہیے‘ کیونکہ ان کی وفاداری ملکی و قومی مفاد سے ہٹ کر ایک مخصوص سیاسی جماعت سے منسلک ہو چکی ہے۔ موجودہ حکومت کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں ناکامی کے اور بھی کئی خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پنجاب اکثریتی آبادی پر مشتمل صوبہ ہے اور میری معلومات کے مطابق یہاںکی بیوروکریسی کی احتساب بیورو کے خلاف منظم بغاوت کرائی جا رہی ہے۔ پوری قوم کے لئے یہ بات انتہائی تشویشناک ہو سکتی ہے۔ عوام کی اکثریت یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پنجاب میں یہ صرف بیوروکریسی کا اپنا احتجاج ہے اور اس سے پنجاب حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ بیوروکریسی اگر تالا بندی اور احتجاج جیسے اقدامات کرتی ہے تو نہ صرف پنجاب بلکہ پورا ملک مفلوج ہو جائے گا اور اگر چیئرمین قومی احتساب بیورو اس احتجاج پر کارروائیاں روک کر سرنڈر ہو جاتے ہیں‘ تو کرپشن کے خلاف بنایا گیا پورا نظام تباہ ہو جائے گا اور یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگانی چاہئے کہ پھر عوام اس عمل کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تو تصادم کا نتیجہ ملک میں خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ وفاقی حکومت ملک کے وسیع تر مفاد میں ان بیوروکریٹس کے خلاف آرٹیکل 5 اور آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کر سکتی ہے اور جن وزراء نے بیوروکریسی کی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی کی ہے ان کے خلاف بھی انہیں آرٹیکلز کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ریاست کے محافظ ہیں اور اگر انہوں نے اس سلسلے میں کوتاہی کی یا اس عمل سے چشم پوشی کی تو وہ بھی آئین کے آرٹیکل 5 کی زد میں آ جائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شہباز شریف قائم مقام صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب شہباز شریف شاہد خاقان عباسی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ سنا دیں گے‘ کیونکہ شاہد خاقان عباسی جب قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر رہے تھے تو حمزہ شہباز شریف‘ نواز شریف سے ناراضی کی وجہ سے ان کو ووٹ دینے کے لئے اسمبلی میں ہی نہیں گئے تھے اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے تھے‘ علاوہ ازیں ان کو وزیر اعظم بنوانے میں مریم نواز کی کوششیں کارفرما رہی ہیں‘ لیکن لگتا ہے کہ مریم نواز صاحبہ کی توقعات پر بھی وہ پورا نہیں اُترے۔ کہا جاتا ہے کہ مریم نواز وزیر اعظم ہائوس میں براجمان رہنا چاہتی تھیں‘ لیکن شاہد خاقان عباسی نے بعض حلقوں کی جانب سے مزاحمت کے خوف سے ان کو وزیر اعظم ہائوس میں مقیم رہنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کے سوشل میڈیا سیل کو بکھیر دیا گیا‘ اور عطاء الحق قاسمی کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان حالات میں کچھ نامعلوم لوگوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں پوسٹروں پر کالک پھیر دی۔ یہ واقعہ سرگودھا میں پیش آیا ۔ اسی پس منظر میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ جاتی امراء کی مسلم لیگ تقسیم کے بالکل قریب ہے جبکہ بعض حلقے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے خوش ہیں جس کے تحت نواز شریف کی پارٹی عہدیداروں کی تقرری اور دیگر اقدامات کالعدم تصور ہوں گے اور سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی روشنی میں مزید اہم فیصلے متوقع ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ملک میں حقیقی مالی استحکام لانا چاہتی ہے تو نئے نوٹ چھاپنے کے بجائے معاشی پالیسیوں میں بہتری لانا ہو گی جس کے لئے سب سے پہلے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے‘ کیونکہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ اس کام کے لئے تمام اداروں کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا‘ ورنہ ملک کے معاشی معاملات میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ حکومت کا نئے نوٹ چھاپنے کا ریکارڈ 42 کھرب 78 ارب سے بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ نئے نوٹوں کا اجرا بھی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین پر نظرثانی کرنے ہوئے جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف دور کی غیر جمہوری ترامیم کو آئین سے حذف کر دیا گیا تھا‘ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے آئین میں بے شمار چیزوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے‘ جیسے چیئرمین سینیٹ کا حلف نامہ۔ اس میں کچھ معاملات آئین کے آرٹیکل 2-a اور 63,62 سے متصادم ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کا منصب بہت اہم ہے۔ وہ ملک کے صدر کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر ہوتا ہے اور 1973ء کے آئین کا بنیادی تقاضا ہے کہ صدر مسلمان ہو گا‘ چونکہ قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہے‘ اس لئے آئین کی ایسی شقوں کی درستی ضروری ہے جن میں آئینی و قانونی اور شرعی سقم ہیں۔ اسی طرح میری نظر میں آرٹیکل 272 اور آرٹیکل64 بھی آپس میں مطابقت نہیں رکھتے ان پر نظر ثانی بھی ضروری ہے۔اب جبکہ سینیٹ کے انتخابات احسن طریقے سے تکمیل پذیر ہو چکے ہیں تو مناسب ہو گا کہ ان معاملات پر توجہ دی جائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں