"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی طریقہ کار میں اصلاح کی ضرورت

سینیٹ کے الیکشن کے واقعاتی حقائق کے تناظر میں یہ کوئی راز نہیںکہ پاکستان میں انتخابات میں ضمیروں کا بڑے پیمانے پر سودا ہوتا ہے اور ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت عمل میں آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں محض ذاتی مفادات کی بنیاد پر ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں جس کے تازہ مظاہر قوم کے سامنے ہیں۔ اس صورت حال کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم منافقت، بد دیانتی، بے ضمیری اور خیانت جیسی اخلاقی برائیوں کو اپنے سیاسی نظام کا حصہ بنائے رکھنے پر راضی ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی کے نزدیک اس صورت حال کا جاری رہنا معاشرے کی بنیادوںمیں بارود رکھنے کے مترادف ہے۔
آئین کی جو دفعات ارکان پارلیمنٹ کے لئے سچائی اور امانت داری کو لازمی قرار دیتی ہیں، ضمیروں کی خرید و فروخت کا یہ کاروبار ان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہوری اور انتخابی نظام ہی کے خاتمے کی باتیں کی جانے لگیں، یہ مرض کے بجائے مریض کو ٹھکانے لگانے والی سوچ ہے۔ فی الحقیقت سیاسی نظام کی ان خرابیوں کا ازالہ سیاسی قیادتوں اور منتخب اداروں کی ذمہ داری ہے‘ لہٰذا پارلیمنٹ کو سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار میں ایسی اصلاحات کرنی چاہئیں کہ جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کے تمام راستے بند ہو جائیں۔ اس مقصد کے لئے سینیٹ کے براہ راست انتخابات پر بھی غور کیا جا سکتا ہے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کی طرز پر سینیٹ کے انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔ قومی مفادات کے تناظر میں نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن نے محمد باقر ایڈووکیٹ کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کر دی ہے‘ جس میں ان دونوں پہلوئو ں پر غور و خوض کرنے کے لئے قانون سازی کی استدعا کی گئی ہے۔ خرید و فروخت میں ملوث ارکان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی بھی ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ کر نا بددیانتی کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہو گا۔ سینیٹ الیکشن کے بعد چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا مرحلہ شروع ہورہا ہے‘ میرے خیال میں جس میں بڑے پیمانے پر ارکان کی خرید و فروخت کے خدشات نمایاں ہیں‘ لہٰذا اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ خرید و فروخت میں ملوث افراد کو نااہل اور ان کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے۔ دو ایوانی مقننہ والے جمہوری ملکوں میں ایوان بالا میں انتہائی قابل و اہل افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ ان کی اہلیت اور معیار سے فائدہ اٹھایا جا سکے مگر ہمارے ہاں یہ سیٹیں بھی ٹیکنو کریٹس کے نام پر مختلف حیلے بہانے بنا کر سیاسی افراد سے ہی پُر کی جاتی ہیں۔ اس فرسودہ نظام کو ختم کر کے ان نشستوں پر حقیقی ماہرین کا انتخاب عمل میں لایا جانا چاہیے۔
سینیٹ پاکستان کا ایسا منتخب جمہوری ادارہ ہے جس میں تمام وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ سینیٹ پاکستان کا اصل وفاق ہے اور پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا عکاس ہے۔ اس ایوان بالا کو مغربی ممالک میں دارالخواص کا نام دیا جاتا ہے اور ان لوگوں کو سیاسی جماعتیں اس ایوان میں منتخب کر کے بھیجتی ہیں‘ جو اپنے علاقوں میں سیاسی طور پر بہت موثر ہوتے ہیں، جن کو مختلف شعبوں میں بہت مہارت حاصل ہوتی ہے، جنہوں نے زندگی بھر کی ریاضت کے بعد سماجی اور شعبہ جاتی مقام حاصل کیا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا ایوان بالا مارکیٹ فورسز کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ ضرور ی ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا کو مارکیٹ فورسز کے ہاتھو ں میں جانے دینے کے بجائے کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے کہ منتخب جمہوری ادارے عوام اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں رہیں۔ پاکستان کے ایوان بالا کو مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ان کا مفاد آگے چل کر بہت خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ دنیا کی کسی جمہوریت میں نظر نہیں آتا‘ یہ صرف پاکستان میں ممکن ہے کہ سینیٹ کے ہر انتخاب میں مارکیٹ کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ راقم الحروف نے قوم کے وسیع تر مفاد میں یہی مشورہ دیا تھا کہ سینیٹ انتخابات براہ راست ہوں، ارکان لوکل کونسل، صوبائی اور قومی اسمبلی کی
طرح سینیٹ کے ارکان کا بھی براہ راست انتخابات کریں بلکہ انڈونیشیا کی طرز پر ایک ہی دن سینیٹ، صدر مملکت، قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور لوکل کونسل کے انتخابات ہونے چاہئیں۔ 
صدر مملکت کا انتخاب بھی براہ راست ہونا چاہیے تاکہ صدر مملکت کو قوم سے رہنمائی حاصل کرنے کا استحقاق حاصل رہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدر مملکت موجودہ معاشی، آئینی اور کرپشن کے بحران میں اپنا آئینی حق استعمال کرنے کے حوالے سے بے بس ہیں۔ سابق و نااہل وزیراعظم ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو للکار رہا ہے اور ان کے وزراء بشمول وزیراعظم‘ ریاست کے مفادات کے بجائے جاتی امرا کے مفادات کو ترجیح دے کر بحران پیدا کر رہے ہیں۔ آئینی طور پر وفاق نے ہی نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف احتساب عدالت میں کیس داخل کئے ہیں۔ وزرا ء کو ریاست کے اس اہم کیس کی پیروی کرتے ہوئے نواز شریف کو قومی مجرم ثابت کرنے کے لئے وفاق کے ساتھ کھڑ اہونا چاہیے‘ جس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان میں ملکی اور قومی سیاست کی مضبوطی میں جو رخنہ اندازی ہوتی رہی اس کے لیے ہمارے سیاستدان قابل مواخذہ ہیں جن کی بے اصولی اور کرپشن کی وجہ سے اہم پارلیمانی ادارے اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں اربوں روپے کی خرید و فروخت ہوتی رہی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا آئینی کردار ادا نہیں کیا۔ اسحاق ڈار‘ جسے قومی احتساب بیورو نے اشتہاری قرار دیا ہوا ہے‘ 
کے کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے‘ زبیر گل اور شاہین بٹ کے کاغذات نامزدگی منظو ر کرتے ہوئے دہری شہریت کے قوانین اور قواعد و ضوابط کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور ایسے کمزور نکات پیش کئے جس سے الیکشن ٹریبونل کو ان کے کاغذات نامزدگی منظور کرنا پڑے کیونکہ ریٹرننگ آفیسر نے اپنا فیصلہ کمزور بنیادوں پر لکھا تھا۔ قانونی طور پر ریٹرننگ افسران کے معاملات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسی سہارے سے 2015ء میں بھی ریٹرننگ افسران نے اپنی نااہلی سے بعض ناپسندیدہ افراد کے کاغذات نامزدگی منظور کئے تھے اور الیکشن رزلٹ میں بھی یہی ہوا۔ سینیٹ رولز کو نظر انداز کر کے بلوچستان کی چند شخصیات سینیٹ میں کامیاب ہوئیں۔ اب الیکشن کمیشن ان کو کالعدم قرار دینے کا مُجاز نہیں ہے اور ایوان بالا اصل روح کے مطابق پروان چڑھنے کے قابل نہیں رہا ۔ ہارس ٹریڈنگ کی گونج ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے ثبوت پیش کرنے سے فریقین سزا کے مستحق قرار دیئے جائیں گے۔ ان تمام تر خرافات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار کے خلاف آئینی درخواست لاہور ہائی کورٹ میںمحمد باقر ایڈووکیٹ کی وساطت سے جمع کروا دی گئی ہے‘ جس میں وزارت قانون و انصاف، وزارت پارلیمانی امور، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فریق بنایا گیا ہے کیونکہ سینیٹ کے لئے ہمیشہ ایسے افراد کا انتخاب کیا جا تا ہے جو سیاسی طور پر بہت مؤ ثر ہوتے ہیں اور جن کو مختلف شعبوں میں بہت مہارت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے بر عکس میرے خیال میں پاکستان کا ایوان بالا مارکیٹ فورسز کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں بڑے پیمانے پر ضمیروں کے سودے ہوئے ہیں، ارکان پارلیمنٹ کے لئے ضروری سچائی اور امانت داری کی آئینی دفعات کا مذاق اڑایا گیا ہے لہٰذا اب اس طریقہ کار کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے پاس سینیٹ کے براہ راست انتخابات کا آپشن موجود ہے جبکہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخابات کی طرز پر بھی سینیٹ کے انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔ قوم کو ایسے ضمیر فروشوں کو نظر انداز کرنا ہو گا جو ایوان بالا کی تضحیک کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں