"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان سے وفاداری کیوں نہیں؟

فنانشل ٹاسک فورس کے اجلاس اور مذاکرات سے قبل امریکی دبائو کی شدت تھی اور ہماری جانب سے بھی جاندار بیان تھا کہ ہم امریکہ کے دبائو میں نہیں آئیں گے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ جو دراصل امریکی مفادات کے ترجمان نظر آتے ہیں‘نے ماسکو جا کر انتہائی تجربہ کار روسی وزیر خارجہ لارودو سے ملاقات کی اور پاکستانی قوم کو یہ تاثر دیا کہ روس پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل نہیں ہونے دے گا ، لیکن جب حقائق سامنے آئے تو پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کے پاس شرمناک کیفیات اور بند کمروں میں خوش آمدانہ مذاکرات کی تفصیلات کے سوا کچھ نہیں تھا۔ قوم کو اندھیروں میں رکھناہماری حکومت کا وتیرہ رہا ہے۔ عوام کے سامنے بیانات میںسخت مئو قف اختیار کرتے ہوئے تو یہ دعوے کئے گئے کہ اب پاکستان امریکہ کے دبائو میں نہیں آئے گا اور مزید کوئی امریکی مطالبات نہیں مان سکتا مگر زمینی حقائق کچھ اور بتا رہے ہیں۔ بالآخر امریکی اور بھارتی مئوقف کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرار داد 1267کے مطابق عمل در آمد مکمل کیا جا رہا ہے ،ہم نے تو روس چین اور ترکی میں سے کسی کو اپنے حق میں استوا ر نہیں کیا کہ وہ ہماری حمایت کر کے اتفاق رائے سے کانفرنس کو فیصلہ کرنے سے روک سکیں ، ہم نے تو فنانشل ٹاسک فورس کے اجلاس سے قبل نہ تو اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور نہ ہی اپنی ترجیحات بتائیں اور نہ ہی بھارت امریکہ اشتراکسے بچنے کی کوئی حکمت عملی تیار کی ،محض گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں گئے اور اپنی داخلی سیاست کے شور میں غیر ملکی دبائو کے مطابق یقین دہانیاں کروا کے واپس آگئے کہ اب تین ماہ کے عرصے میںکئے گئے اقدامات کی روشنی میں پاکستان کو فہرست میں شامل کرنے یانہ کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ اول تو یہ فورم سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے موضو ع پر بحث اور فیصلوں کا فورم نہیں بلکہ یہ تو دہشت گردوں اور ایٹمی پھیلائو جیسے موضوعات پر سنجیدہ گفتگو اور منی لانڈرنگ بارے اقدامات کا فورم ہے ،لیکن داخلی انتشار میں گھری ہوئی نا اہل اور کرپٹ حکومت اور بین الاقوامی معاملات سے عاری قائدین نے نا تجربہ کار اور سفارت کاری سے نا بلد افراد کو ملک کی نمائندگی کے لئے بھیجا اور نا اہل وزیر خارجہ جو منی لانڈرنگ اور اقامہ کے معاملات میں احتساب کورٹ کے سامنے جواب دہ ہو رہے ہیں انہوں نے بلا وجہ گرما گرم بیان دیا کہ پاکستان اب امریکی کیمپ کو خیر باد کہ چکا ہے۔ اس بلا وجہ نواز شریف ٹائپ بیانیہ کے ردعمل میں پاکستان بارے معتدل رویہ سخت مئو قف میں تبدیل ہو گیا اور بھارتیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے نام نہاد نمائندے با لآخر امریکی مطالبات اور موقف تسلیم کر کے ناکام واپس آگئے ۔بھارتی مقاصد کو بھی نواز شریف کی پالیسی کے عین مطابق پو را کر ڈالا اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ابھی تک یہ واضح نہیں کر سکے کہ آئندہ جون میں پاکستان گرے لسٹ میں شامل کر لیا جائے گا یا اس بارے میں غور اور فیصلہ ہوگا ۔ چین اور روس نے اس کانفرنس میں ہماری حمایت کرنے سے انکار کیاہے یا پھر اندرون کوئی ایسا معاملہ ہے جس سے پاکستان کی فیڈریشن کا شیرازہ بکھرنے والا ہے جس کا خواب 1984ء میں عبد الحفیظ پیرزادہ اور ان کے ہم نوائوں نے دیکھا تھا اور جس کی بنیا دکو مضبوط کرنے کے لئے 18ویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کو کنفیڈریشن کی طرف لیے جانے کی مذموم کوششوں میں ایک این جی او سر گرم ہے جس کی سر پرستی وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کر رہی ہے۔ اسی پس منظر میں یورپی اور دیگر رکن ممالک پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لئے دبائو ڈالتے رہے اور ماحول کو پریشان کن بناتے ہوئے پاکستان کے لئے ایک شدید دبائو کی صورت حال پیدا کی گئی ،پاکستان کے فنانشل مشیر مفتاح اسماعیل کا یہ بیان حقیقت پر مبنی نہیں ہے کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی، اس بیان کا نتیجہ اور حقیقت بھی ہمارے سامنے آگئی۔عالمی سفارت کاری اور مالیاتی تناظر کو سمجھنے کے لئے صرف اپنے ذاتی کار وبار میں اضافہ اور کامیابی حاصل کر لینا قطعاً کافی نہیں۔ عالمی مالیاتی سفارت کاری ایک مشکل کام ہے جس کے لئے محض ذاتی کاروبار تجربہ اور حکومتی منصب ہونا کافی نہیں ہوتا۔ ن لیگ کے میڈیا سیل سے قوم کو گمراہ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ آئندہ پاکستان سے امریکی و بھارتی مطالبات میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور بات منی لانڈرنگ تک نہیں رہے گی بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر یک طرفہ احتیاطی اقدامات کی بات ہو گی اور یوں پاکستان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ان مطالبات کو مانتا ہوا امریکہ کی بند گلی میں جا کھڑا ہو جائے گا ۔کشمیر کے مسئلہ پر بھی سلامتی کونسل کی ستر سالہ قرار داد کو بھی پس پشت ڈال کر نئی حکمت عملی اپنانے سے ایک نیا پنڈورابکس کھول دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے نمائندے دبائو ،گھبراہٹ اور نا تجربہ کاری کے ہاتھوں پیرس کانفرنس سے ناکام لوٹتے ہیں تو پھر یکم جون 2018کو آنے والی عبوری حکومت عام انتخابات منعقد کروانے کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بیرون دنیا میں پاکستان کے مفادات کی حفاظت کا نازک اور اہم کام کیسے سر انجام دے گی جب کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ملکی اور غیر ملکی معاہدات کے حوالے سے ان کے اختیارات کو محدودکر دیا گیا ہے ۔ اگر ڈان لیکس کے قومی مجرموں کو آہنی ہاتھوں سے پکڑ لیا جاتا تو پاکستان گرے لسٹ میں شامل نہ کرایا جا تا اور قوم اپنے حقیقی مجرموں کو پہچان لیتی ۔
پیرس کانفرنس میں پاکستان تنہا نظر آیا اور فنانشنل ٹاسک فورس کے 37ممالک کی اکثریت نے پاکستان کو دہشت گردوں کی صف میں لا کھڑ اکیا ، چین ،متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب نے پاکستان کو سپورٹ نہیں کیا اور نواز شریف کے بغاوتی بیانیہ نے پاکستان کی حکومت کو کمزور آئینی ملک بنا دیا ۔نواز شریف کی ساری توجہ پنجاب کو خود مختار ملک بنانے میں ہی لگی ہوئی تھی اور ان کے نریندر مودی سے بھی گہرے تعلقات اسی سلسلہ کی کڑی ہیں جس کی طرف پاکستان کے سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان سے پرویز رشید کی طرف اشارہ کر کے حقیقت بیان کر ا دی ہے۔
پاکستان ٹیرر فنانسنگ واچ لسٹ کے بعد اب بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے ۔اس مرتبہ خطرے کی گھنٹی ہلکی آواز سے نہیں بلکہ زور دار کڑک سے گونج رہی ہے جس سے سفری پابندیوں اور امداد میں رکاوٹ ہو سکتی ہے ، اگر پاکستان امریکہ کو اپنی رپورٹ میں مطمئن نہ کر پایا تو امریکی حکام پاکستان کا درجہ کم کر کے ٹائر تھری کر سکتا ہے ،اگر پاکستان جو کہ پہلے ہی ٹائر ٹولسٹ میں 2013سے شامل ہے اسے ٹائر تھری کر دیا جائے گا اور پھر یہ ایران ، چین ، روس اور شام کے ساتھ آجائے گا۔ پاکستان 2015میں ٹائر ٹولسٹ میں رہ چکا ہے۔ اگر کوئی ملک دو سال کے لئے ٹائر ٹولسٹ میں رہے تو وہ آٹو میٹک ٹائر تھری لسٹ میں چلا جاتا ہے۔پاکستان کے پارلیمانی نظام کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی کہ جن کا دائرہ کار ہر قسم کے اخلاقی اور قانونی اصولوں سے با لاتر ہو۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے بزنس پارٹنر کو امریکہ جیسے اہم ملک میں سفیر مقرر کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 65کے تحت مقدمہ دائر ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کو امریکہ اور عالمی سفارت کاری کے حوالے سے نہایت تجربہ کار سفارت کار کی ضرورت ہے اور اس تناظر میں ملیحہ لودھی کو پاکستان کا سفیر مقرر کیا جاسکتا ہے ، وزیر اعظم کے بزنس پارٹنر کو نیپال یا ڈھاکہ میں سفیر لگایا جا سکتا تھا لیکن وزیر اعظم نے مملکت پاکستان سے وفاداری کے بجائے اپنے کاروبار ی مفادات کو ترجیح دی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں