"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ بندیوں کا گرداب

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی میگا کرپشن کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل، عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات، قومی احتساب بیورو کی انکوائریوں کے گرداب میں بری طرح پھنس چکی ہے‘ جس کی وجہ سے حکمران جماعت کا گراف بری طرح گر رہا ہے اور اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ نواز شریف دو محاذوں پر سرگرم نظر آتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت ان کے اپنے نمائندے چلا رہے ہیں، اور وہ خود اپنی ہی حکومت کے اداروں کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک ان کی اس روش پر حیران ہیں اور بڑی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں فائدہ یقینا اپوزیشن جماعتوں کو ہو گا اور نقصان مسلم لیگ ن کا ہو گا۔ موجودہ سیاسی منظر کو دیکھتے ہوئے مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) صرف وسطی پنجاب تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
قوموں کی طرح سیاسی جماعتیں بھی دور اندیش اور زیرک قیادت کی مرہون منت ہوا کرتی ہیں۔ اچھی‘ دور اندیش اور زیرک قیادت میں سیاسی جماعتیں عوام کے دل جیت لیتی ہیں اور اگر قیادت کا فقدان ہو تو زمانے کی دھول میں کہیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان مسلم لیگ (قیوم)، تحریک استقلال اور پاکستان مسلم لیگ کونسل کی مثالیں موجود ہیں‘ جو اپنے وقت میں جمہوری جدوجہد کا استعارہ رہیں‘ مگر اس وقت بہت کم لوگ ہوں گے جو ان سیاسی جماعتوں کے بارے میں آگاہ ہوں گے۔ پاکستان اس وقت جس ابتری و انتشار اور سیاسی اخلاقیات کی تنزلی کا شکار ہے‘ وہ پاکستان کیلئے کوئی نیک شگون نہیں۔ حصول اقتدار کیلئے ایسی گروپ بندیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ماضی میں جن کا تصور بھی محال تھا۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) کے کئی سینئر رہنما پارٹی قیادت سے نالاں ہیں کہ جب حکومت اپنی ہے تو اداروں سے محاذ آرائی کی کیا منطق ہے۔ لیڈروں کے اپنے ہی خیالات کے باعث کارکن ناراض اور غیر فعال رہے، خاص طور پر چوہدری نثار علی خان جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کی روشنی میں جے آئی ٹی کی سماعت اور اس کے بعد بھی نواز شریف کو مبینہ خوشامدیوں سے محفوظ رہنے کا کہتے رہے۔ دلیل وہی تھی کہ اگر حکومت اپنی ہے تو اداروں سے محاذ آرائی مشکلات میں اضافہ ہی کرے گی‘ ریلیف کی توقع عبث ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ تھا کہ اگر پارٹی مشاورت سے معاملات پارلیمنٹ میں ہی حل کر لئے جاتے اور حکومتی معاملات خاص طور پر پانامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں نہ لے جایا جاتا تو حالات خراب ہی نہ ہوتے۔
میڈیا میں یہ باتیں گردش کرتی رہیں کہ شریف برادران اور ان کی اگلی نسل میں اختلافات سنگین نوعیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اسی دوران عدلیہ کی جانب سے نواز شریف وزارت عظمیٰ کے بعد پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل قرار پائے۔ اس صورت حال میں پارٹی کو بکھرنے سے بچانے کے لئے شہباز شریف کو پارٹی صدر بنا دیا گیا‘ جو بادی النظر میں درست فیصلہ ہے۔ شہباز شریف ایک جہاندیدہ اور متحرک شخصیت ہیں، سیاست کے نشیب و فراز کو خوب سمجھتے ہیں اور وہ مفاہمت سے کام لینا جانتے ہیں۔ اگر نواز شریف ان کے قومی اور سیاسی سفر میں حائل نہ ہوئے تو دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان سے تعاون کے لئے آگے بڑھیں گی۔ اگلے انتخابات میں نواز شریف نے انتخابی مہم چلائی تو شہباز شریف اور ان کی پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ عوامی شعور کی بیداری اور کرپشن کی آلودگی سے محفوظ رہنا اولین شرائط ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کرپشن کی دلدل میں بری طرح دھنس چکی ہے۔ اس کے نیلی آنکھوں والے کرپٹ بیوروکریٹس کی اربوں روپے کی کرپشن کے تانے بانے وزیر اعلیٰ سے مل رہے ہیں۔
پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں قانون کی بنیاد برٹش حکومت کا بنایا ہوا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ہے اور اسی ماخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے 1956، 1962 اور 1973 کے آئین بنائے گئے اور اسی وجہ سے آئین نظریہ، جمہوری ریاست اور حکومت کے صحیح معنوں میں تعریف کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک ان کا اقتدار میں ہونا یا اقتدار میں رہنا اہم ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کسی اصول یا اخلاقیات کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی صحیح ترجمانی نہیں ہو رہی۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ کچھ جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ زیادہ تھے لیکن اسمبلی میں ان کی نشستیں کم تھیں‘ کہیں دو یا زیادہ امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ لیکن مجموعی ووٹوں میں سے کم ووٹ حاصل کرنے والا اسمبلی کا رکن بن گیا۔ اسمبلیوں میں عوام کی رائے کی درست ترجمانی کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ جمہوریت کے نام پر کام کرنے والی سیاسی جماعتوں میں شخصی روایت کے بجائے عادلانہ اور منصفانہ جمہوری لیڈرشپ کو مواقع نہیں دئیے جائیں گے تو نہ اعلیٰ اخلاقی و جمہوری اصول پروان چڑھ پائیں گے اور نہ ہی کسی سطح پر ووٹوں کی خرید و فروخت ختم ہو گی۔
قومی اسمبلی کی میعاد 31 مئی2018 کو ختم ہو جائے گی۔ اب اس ملک میں 2018 کے انتخابات کا بگل بجنے والا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان کا پہلا اجلاس یکم جون 2013 کو منعقد ہوا تھا‘ جس میں آئین کے آرٹیکل 65 کے تحت ارکان اسمبلی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ 3 جون 2013 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوا تھا۔ اسی روز انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ اسی تناظر میں اب آئندہ انتخابات جولائی کے آخری ہفتے میں ہوں گے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شفاف انتخابات کروانے کے لئے جامع حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ مئی 2013 کے انتخابات میں بیمار قیادت کی وجہ سے جو خامیاں اور خرابیاں رہ گئی تھیں ان کا تدارک کیا جا چکا ہے۔ اس کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے۔ بقول الیکشن کمیشن آف پاکستان بین الاقوامی معیار کے عین مطابق بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مئی 2013 کے انتخابات میں یو این ڈی پی کا تیار کردہ سسٹم اچانک رات 11 بجے فلاپ ہو گیا تھا‘ اور الیکشن کے نتائج کے لئے مینوئل طریقہ اپنایا گیا تھا جو متنازعہ الیکشن کا باعث بنا اور یو این ڈی پی نے بھی اس سانحہ کی انکوائری کروانا ضروری نہیں سمجھا۔
نئے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ایک ہی ریٹرننگ افسر اپنے ایک حلقہ کے انتخابی عمل کا نگران ہو گا‘ جسے جدید ترین کمپیوٹرز، پرنٹرز‘ تیز ترین انٹرنیٹ اور سکینر کی سہولت سے لیس کیا جائے گا‘ اور اب نئے فارم 45,48,49 جو سابقہ فارم میں 14,16,17 سے منسوب کئے جاتے تھے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا بیس میں موجود ہوں گے اور عوام اور امید واروں تک رسائی مہیا کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوام کی خواہشوں کے مطابق انقلابی اقدامات کئے ہیں اور ان کی حکمت عملیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی قیادت کے سائے تلے دھاندلیوں کے الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن اپنے قانونی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے شفاف انتخابات کرائے گا کیونکہ اس مرتبہ انہیں چیف جسٹس آف پاکستان کی مکمل معاونت حاصل رہے گی اور صوبائی حکومتوں کے اہل کاروں کو احساس رہے گا کہ ان کی نگرانی چیف جسٹس آف پاکستان کر رہے ہیں۔ شفاف انتخابات کے لئے آئین کے آرٹیکل 218 کے ساتھ ساتھ 184(3) کی تلوار بھی ان کو نظر آئے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات بھی ہائی کورٹ کے مساوی کر دئیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے بحران سے نہ نکل پایا تو سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مرتب کردہ حلقہ بندیاں از سر نو مرتب کرنے کے بارے میں احکامات جاری کرنے کی پوزیشن میں ہو گی کیونکہ مردم شماری کی حتمی رپورٹ آنے اور تقریباً ساڑھے اٹھارہ ہزار بلاکس پر نظر ثانی کرانے کے نتیجہ میں کراچی میں آبادی میں اضافہ ہو جائے گا اور سندھ کی حد تک حلقہ بندیاں دوبارہ کرائی جائیں گی اور اس کے اثرات فاٹا اور دیگر حساس جگہوں پر بھی پڑیں گے اور حلقہ بندیاں امر بیل کی طرح پھیلتی ہی جائیں گی اور الیکشن میرے خیال میں آئینی و قانونی طور پر مزید 3 ماہ کے لئے ملتوی ہو جائیں گے۔ اس مقصد کے لئے نگران حکومت کو آئین کے آرٹیکل 254 کا سہارا لینا پڑے گا اور سپریم کورٹ کے حلقہ بندیوں کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ بھی سامنے آنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں